تحریر: اسرار حسن
تاریخ: ٢٢ اکتوبر
٢٠١٥
آج سے ٹھیک
٦٨ سال پہلے اسی
اکتوبر کےمہینہ میں الحاق کشمیر کا واقعہ
پیش آیا تھا ، جسکی ایک
جھلک قسط-١ میں پیش کر
چکا ھوں- یہاں
دوسری قسط میں الحاق
کشمیر کی بقیہ کہانی
پیش
خدمت ہے-
٢٢ اکتوبر ١٩٤٧ کو کشمیر
پر حملہ کا
ایک بگولہ اٹھا-
تقریبن تین سو
بسوں اور لوریوں
پر صوبہ فرنٹیئر کے
تقریباً پانچ ہزار
قبایلی جنگجو جن میں
آفریدی، وزیری، محسودی،
سوا تھی کے علاوہ
پاکستان آرمی کے
ریٹایرڈ سپاہی شامل
تھے، ایبٹ آباد کے
راستے جہلم روڈ
پر وادی جموں
کشمیر کی جانب
رواں دواں تھے-
یہ حملہ آور
بارہ مولا کے راستے
سرینگر کی جانب
بڑھ رہے تھے-
متھو را پاور ہاؤس
پر قبضہ کر
کے سرینگر کو
اندھیرے میں ڈبو
دیا-
یہ
قبایلی لشکر نہ
تو کسی تنظیم
میں منسلک تھے ، نہ
ہی ان کی
رہنمایی اور لیڈری
کوءیی کر رہا
تھا- ہر جگہ
عوام الناس کشادہ دلی سے
انکی اؤ بھگت
کرتے تھے- یہ
لوگ زیادہ تر
پا پیادہ مارچ
کرتے تھے، یا بسوں اور ریل
گاڑیوں کی چھتوں
پر بیٹھ کر
سفر کرتے تھے- ٢٠ ا کتوبر ١٩٤٧
تک ایبٹ آباد اور مظفرآباد کے
درمیان بڑا سی کے
جنگل میں ہزارہا قبایلیوں کا
ایک بڑا لشکر
جمع ہو گیا- ٢٠ اکتوبر
کی رات کو
مجاہدین نے پیشقدمی
شروع کر دی- اگلے
دو روز کے
دوران ڈوگرہ فوج
اور RSS کے
دستوں کو شکست دے
کر کوہالہ ، دو میل،
اور مظفر آباد
کو لے لیا- یہاں سے
دس میل دور
'گڑھی دو پتہ' کے
مقام پر ڈوگرہ
فوج کو شکست
دیا- اب انکے
آگے اوڑی، بارہ مولا،
اور سرینگر تک کا راستہ
صاف تھا- ٢٤
اکتوبر کو مجاہدین
نے محورہ پر
قبضہ کر کے
پاور ہاؤس اڑا
دیا- رات
نو بجے پورا
سرینگر اندھیرے
میں ڈوب گیا-
اسوقت مہاراجہ
ھری سنگھ اپنے
راج محل میں
دسہرہ کا دربار
لگاے بیٹھا تھا-
جب سرینگر
کا شہر تاریکی
میں ڈوب گیا
تو ھری سنگھ
کو اپنی جان
کے لالے پر
گئے- اپنے
محلا ت کے سارے بیش
قیمت سامان کو اس نے
آٹھ
دس ٹرکوں پر لادا اور
راتوں رات با
نہال روڈ کے
راستے جموں کی
طرف فرار ہو
گیا- جموں
کا شہر اور
اسکے مضافات مسلمان
آبادی سے یکسر
خالی ہو چکے
تھے- جموں
کے محفوظ حصار
میں پہنچتے ہی مہاراجہ ھری
سنگھ نے بھارت
سے مدد کی
درخواست کی- جواب میں
سردار ولبھ بھا ی پٹیل
اور ماؤنٹ بیٹن کی
جانب سے مسٹر
وی-پی-مینن بزریعہ ہوا ی
جہاز جموں پہونچا
اور بھارتی حکو مت کی
جانب سے مہاراجہ کواس نے
دھمکی دی کہ
اگر اس نے فوری
طور پر اپنی
ریاست کا ہندوستان
سے الحاق نہ کیا تو
اسے کسی قسم
کی کویی مدد
نہ دی جاےگی-
مہاراجہ نے بلا
چوں و چراں بھارت کیساتھ
الحاق کی دستاویز
پر دستخط کر دیا
- اور
مونٹ بیٹن نے مہاراجہ
کو جوابی خط
کے ذریعے الحاق
کشمیر کی تصدیق
کر دی-
مھورا سے
مجاہدین کا لشکر
بارہ مولا پہنچا
تو دیکھا کہ
ڈوگرا فوج اور
RSS کے درندے
اس شہر کو
اپنے ہی ہاتھوں
تاراج کر کے
وہاں سے بھا گ
کھڑے ہوۓ تھے اور بارہ
مولا میں بےشمار
معصوم مسلمان شہریوں
کو قتل کر
ڈالا تھا- انکے
گھر لوٹ کر نذر
آتش کر
دیا تھا، اور
ایک عیسا ئ خانقاہ
کے مکینوں اور
اسکے ساتھ ملحق
ہسپتال کے مریضوں
کو تہ تیغ
کر دیا تھا- بارہ مولا
کا شہر ملبے
کا ڈھیر بنا
پڑا تھا- وہاں سے
سرینگر فقط ٣٠ میل دور
تھا- آگے کا
راستہ بلکل صاف
تھا اور دشمن
کی طرف سے
کسی روکاوٹ کا
اندیشہ نہ تھا- مجاہدین
کا لشکر فاتح
و نصرت کے
ڈنکے بجاتا بارہ مولا تک
آ پہونچا تھا-
فقط چند
گھنٹوں میں آگے
بڑھ کر سرینگر
کے ہوائی اڈے کو قبضہ
میں لیکر اس
مظلوم ریاست کے
مسلمانوں کی تاریخ
کا رخ بدل
سکتا تھا-
دستاویز
الحاق پر دستخط
کے فور١ بعد اسی
روز صبح نو بجے
سے بھارتی ہوائی جہازوں نے ہندوستانی
فوج کے دستوں کو سرینگر
کے ہوائی اڈوں پر اتا رنا شروع
کر دیا- ایک ایک دن میں
پچاس پچاس پروازیں
سرینگر کے ہوا ی
اڈے پر اترنے لگیں-
ساتھ ہی
گورداسپور کے زمینی راستے
بھارتی فوج کی کثیر
تعداد جموں آنے
لگیں- آزاد کشمیر جنگ کا
پانسہ اچانک پلٹ گیا
- مجاہدین کا
لشکر دو دنوں
سے بارہ مولا میں
کیوں اٹکا رہا، یہ
معماّ اج تک حل نہ ہو سکا- اگر
اس لشکر کا
تھوڑا حصّہ بھی
یلغار کرکے سرینگر
ایئر پورٹ پر
قابض ہو جا
تا تو بھارتی
فوج
وادی کشمیر پر اپنا
تسلّط جمانے میں
کسی طرح کامیاب
نہ ہو سکتی تھی- اسکے
بر عکس سرینگر
اور جموں میں بھارتی فوج
اور انکے جنگی
ساز و سامان کی
آمد کی خبر سے مجاہدین
میں پسپایی کی ایک بھگڈر
مچ گی- وہ انتہایی
غیر منظّم طور
پر اپنے اپنے
علاقوں کی طرف
واپس لوٹنا شروع
ہو گئے- یہ
صورت حال کیوں اور
کیسے پیدا ھویی،
اسکا کویی حتمی
جواب تاریخ
سے نہ مل سکا- اس
بارے میں طرح
طرح کے مفروضے،
امکانات اور قیاس
آرا ءیاں سننے
میں آتی ہیں-
قدرت الله
شہاب اپنی کتاب
شہاب نامہ میں بیان
کر تے ہیں-
ایک نظریہ یہ ہے
کہ لشکر کے
کمانڈر میجر خورشید
انور نے مجاہدین کا بارہ مولا سے سرینگر
داخل ہونے سے
پہلے وہ کشمیر
کے سیاسی مستقبل
میں اپنی پوزیشن کو
متعین اور مستحکم کر نے
میں مصروف ہو گئے ، اور
ایک بیش بہا
موقع کھو دیا-
دوسرا نظریہ:
شیخ عبدللہ کے
ایجنٹ اور بھارت
کے جاسوسوں نے یہ افواہ
پھیلایا کہ بھارت کی
فوج سرینگر میں پورے
لاؤ لشکر اور جنگی
ساز و سامان
کے ساتھ مجاہدین
کی استقبال کے
لئے موجود ہے-
تیسرا
قیاس: بارہ مولا میں
مجاہدین کی امداد
کے لئے جو
کمک ایک نیشنل کانفرنسی لیڈر، مقبول
شیروانی کی سر
براہی میں روانہ ہوا
تھا وہ دو
روز تک نہ
پہنچ سکا- اور
مجاہدین بارہ مولا
میں انکا انتظار کرتے
رہ گئے-
چوتھا
قیاس یہ ہے کہ
بھا رتی قادیانیوں اور
کشمیری قادیانیوں کی
مشترکہ کاوشوں سے
مجاہدین کی پیش قدمی
بارہ مولا سے
آگے نہ بڑھ
سکی-
ان مفروضوں
اور قیاس آرائیوں
کے علاوہ مندرجہ ذیل بیان
بھی قابل غور ہے-
"پٹھان مجاہدوں
کا بےہنگم اور بے لگام
سیلاب بارہ مولا کے عیسا
یئ کا نو نٹ (convent) کی
لوٹ ما ر میں یہاں
رک گیا، جبکہ کشمیر کی راجدھانی
، سرینگر اور اسکا
واحد ایئر پورٹ
یہاں سے صرف ٣٠
میل کی
دوری پر تھا- ٢٧
اکتوبر کا سارا
دن مجاہدین کانونٹ
اور اسکے گرجا
گھر کی لوٹ ما
ر میں لگے رہے،
جبکہ سکھوں کی ایک
مختصر نفری سرینگر ایئر
پورٹ کی حفاظت
کرتی رہی- بارہ مولا
میں پٹھان مجاہدین
اپنی روایتی لوٹ مار، آتش
زنی، اور کانونٹ
آف میری کی
راہباؤں کے ساتھ اپنی جنسی
بھوک کی پیاس
بجھا تے رہے-
کانونٹ کے ہسپتال
کے مریضوں کو تہ
تیغ کرنے
کے بعد لوٹ
مار میں ایسے مصروف
ہوۓ کہ گرجا گھر
کے دیو ھیکل دروازوں
کے پیتل کے
ہنڈل اور قابضے تک
کو نہ چھوڑا-
یہ وحشی
سیلاب اپنے کاموں
میں دو دنوں تک
ایسا مصروف رہا کہ
انہوں نے
جواہر لال نہرو کے سپاہیوں کو وادی کشمیر
میں اپنا پیر جمانے کا
موقع فراہم کر
دیا-
٢٤
اکتوبر کی شام گورنمنٹ
آف انڈیا نے
مہاراجہ کشمیر کی طرف
سے ایک نہایت
اھم اپیل موصول
کیا تھا، جس میں
فوری فوجی امداد
کی درخواست کی
گیی تھی- ٢٥
اکتوبر کو حکومت ھند کی
ڈیفنس کمیٹی میٹنگ
میں بیٹھی ، جسکی صدارت
ماؤنٹ بیٹن نے کی- ٢٦
اکتوبر کو الحاق کشمیر
کی دستاویز پر
مہاراجہ کشمیر کا دستخط ثبت
ہونے کے بعد بھارت
نے اسی دن
سے اپنی فوج اور
جنگی ساز و
سامان بذریعہ ہوئی
جہاز سرینگر روانہ کرنا
شروع کر دیا- "
(Reference: “Freedom at Midnight”; by Dominique Lapierre & Larry Collins).
--------------------------------------------------------------------
Other References:
“Shameful Flight” by Stanley
Wolpert;
“Pakistan From 1947 to the
Creation of Bangladesh”, A Keesing’s Research Report;
“Jinnah, India, Partition,
Independence”, by Jaswant Singh;
“Shahab Nama” by Qudratullah
Shahab;
Enc. Wikipedia, Enc.Britannica, Magazines and Newspapers.
------------------------
Email: ihasanfaq@yahoo.com
Blog: www.Israrhasan.com
Facebook.com/Israr.hasan1
بکل جھوٹ پر مبنی تحریر ہے۔یہ مجاہدین نہیں بلکے قبایلی ڈاکو تھے ۔شرم کرو۔
ReplyDelete