تحریر: اسرار حسن
تاریخ: ٤ –
اکتوبر ٢٠١٥
اس
عنوان پر گزشتہ
دو قسطوں میں
جن خدشات و
خطرات کی نشاندہی
کی گیئ تھی
وہ ایک ایک
کر کے ہمارے
سامنے آ رہی
ہیں- آنے والے
دنوں میں ملک
کی اندرونی اور
بیرونی حالات کا
اندازہ لگانا کچھ اتنا
دشوار بھی نہیں
ہے- جسطرح ہم
موسم کی پیشن
گویی موسمیاتی
سائنس کے ذریعہ
کر سکتے ہیں
اسی طرح ملکی
اور سیاسی مد و
جزر کی پیشن گویی
ہم پولیٹیکل سائنس
اور سوشل سائنس
کی مدد سے
کر سکتے ہیں- گزشتہ
دو قسطوں کی
تفصیل دیکھیے: hasan.israr/com .facebook
ایک اہم
سوال یہ ہے
کہ ضرب عضب کا
ہدف کون ہے
اور کس کے
خلاف ہے- یہ شرو
ع تو ہوا
تھا تحریک طالبان
پاکستان اور شدّت
پسند جماعتوں کے
خلاف لیکن وقت
کے ساتھ ساتھ اسکا دائر ه
ہر قسم
کی دہشت گردی کے
خلاف وسیع تر
ہوتا گیا- آج
اسکے ہدف میں
سیاسی ، معاشی، مذہبی،
انتظامی، پولیس
اور بیورو کریسی وغیرہ ،
وغیرہ کی دہشت
گردی شامل ہیں-
ان ساری دہشت گردیوں
کا سوتا پاکستان کی سول
آبادی سے پھوٹتا
ہے- ضرب عضب کا
سامنا کسی بیرونی
طاقت سے نہیں
ہے جنکی پہچان
ہم سے مختلف
ہو- ہمارا سامنا
اپنے ہی لوگوں
سے ہے- افغانستان
میں سوویت فوجیوں
کو پہچاننا مشکل
نہ تھا- نہ
ہی انھیں شکست
دینا مشکل تھا-
لیکن افغان حکومت
افغان طالبان کو
قندوز پر قبضہ
کرنے سے نہ
روک سکی- جسطرح
افغان حکومت کو
افغان طالبان سے
مصالحتی سمجھوتہ ضروری
ہے اسی طرح
پاکستان حکومت اور
پاکستان فوج کو
پاکستان طالبان سے
مصالحتی سمجھوتہ دونوں
کی بقا و
سلامتی کے لئے
ضروری ہے- اپنے
گھر میں اپنے
ہی لوگوں سے
غیر معین مدّت
تک انکی دہشت
گردی سے نہیں
لڑ سکتے-
راحیل
شریف کی موجودگی
میں نظام حکومت
اور حکومتی اداروں
کا نظم و
نسق جس انداز
سے چلایا جا
رہا ہے وہ
قابل تحسین ہے-
راحیل شریف کی
یہ اسٹریٹیجی (strategy)
کہ آیین پاکستان
اور پارلیمان کو
منسوخ کئے بغیر
ملکی نظم و
نسق میں کسطرح
اصلاحات کو نافذ
کیا جائے، یہ ترقی پذیر
ممالک کی سیاسی
تاریخ میں ایک
انوکھی strategy ہے-
یہ ترقی پذیر
ممالک کے ہر
فوجی ڈکٹیٹر کے
لئے قا بل تقلید
ہے-
پاکستان
سے ہر قسم
کی دہشت گردی
کی گرفت کمزور
پڑتی جا رہی
ہے- راحیل شریف
کے لئے ایک
مدّت متعین کرنا
ضروری ہے جب
وہ تحریک طالبان
اور کالعدم شدّت
بسند جماتوں سے گفت
و شنید
کر کے انکو
ملکی امن و
سلامتی کے دھا رے
میں شامل کر
سکیں- آج تحریک
طالبان اور انکے
ساتھ شدّت پسند
جماعتوں کی ہٹ دھرمی وہ
نہ ہوگی
جو ضرب عضب سے
پہلے تھی.
اسی عنوان
کی دوسری قسط
میں بیرونی منظر
نامہ کا ایک
تمہیدی خاکہ مندرجہ
ذیل الفاظ میں پیش
کر چکا ہوں-
"پاکستان
کا بیرونی منظر
نامہ کچھ زیادہ
ہی تشویش ناک
ہے- کشمیر میں
LoC پر بھارت
کی طرف سے
گولہ باری، پاک
افغان کا مغربی
سرحد جو ہزاروں
میل بغیر کسی
سرحدی حد بندی
کے شمال سے
جنوب تک کھلا ہوا
ہے وہ اندرونی
اور بیرونی دہشت
گردوں کے لئے
ایک جنّت ہے- پاک چین
اقتصادی راہداری کا
منصوبہ نہ تو
افغانستان کو، نہ
امریکا اور بھارت
کو قا بل
قبول ہوگا-" اس
منظر نامے کو
ایک rwide اسکرین پر
دیکھا جائے تو
کچھ یوں نظر
آتا ہے-
باور
کیا جاتا ہے
کہ بھارت پاکستان
سے نبرد آزما
ہونے کے لئے
اپنے دو نوں محازوں
کو تقویت دیگا-
کشمیر کے LoC
پر بھارت کی
گولہ با ری میں
اضافہ کی توقع
کی جا سکتی
ہے اور جموں
و کشمیر میں مقامی
آبادی کی سر کوبی کے
لئے پولیس اور
رینجرز کے مظالم
میں اضافہ ہو
سکتا ہے- ساتھ
ہی ساتھ بھارت
افغانستان میں اپنا
اثر و رسوخ
بڑھاتا جاےگا- تحریک
طالبان کے خلاف
پاکستان کا ضرب عضب بھارت
کے لئے افغانستان
میں اپنا اثر و
رسوخ بڑھانے کا
ایک مفید نسخہ
ثابت ہوگا- یہ
بعید نہیں کہ
تحریک طالبان پاکستان
کو افغانستان کی
سر زمین پر
بھارت کی طرف
سے اسلحاجات اور ما لی مدد
بھی حاصل ہو-
پاک چین
راہداری کو عملی
جامہ پہنانے
کے لئے پاکستان
کے طول و
عرض میں چین
کی آمد افغانستان،
امریکا اور بھارت کے
لئے کبھی
پسندیدہ نہ
ہوگا- روس
کا زخم خوردہ
افغانستان چین کی
موجودگی کو برابر
اپنے لئے خطرے
کا با عث تصور
کریگا- پاکستان کی
داخلی امن و
سلامتی کا دار
و مدار بہت
کچھ افغانستان کی
داخلی امن و
سلامتی پر منحصر
ہے- پاکستان میں چین
کی آمد سے
پاکستان کو افغانستان
کے ساتھ اپنا
دوستانہ تعلقات کو
قایم رکھنے میں
برابر دشواری پیش
آ سکتی ہے جوں
جوں پاک افغان
تعلقات ابتر ہونگے
توں توں بھارت
افغان تعلقات استوار
ہوتے جاینگے- پاکستان
میں چین کی آمد
سے امریکا کا
ایشیائی خواب بھی
تحلیل ہوتا جاےگا-
امریکا بحر ہند
اور ایشیا میں
بھارت کو اپنا
جا نشین بنانے کا
ایجنڈا رکھتا
ہے-
مستقبل
قریب میں ابھرنے والے
ان ممکنہ منظر
نامے کی وجہ
سے پاکستان کو
جن مشکلات کا
سامنا ہوگا ، اسکا
واحد تقاضا یہ
ہے کہ پاکستان
اپنی اندرونی امن
و سلامتی کو جلد
از جلد یقینی
بناے اور ہر
طبقعے فکر کے
ساتھ، خصوصاً تحریک
طالبان اور شدّت
پسند جماعتوں کے
ساتھ گفت و
شنید کر کے انکو
امن و سلامتی
کے قومی دھا ر ا میں
شامل کیا
جائے- اسی میں عافیت
ہے-
Email: Ihasanfaq@yahoo.com
Facebook.com/Israr.hasan1
No comments:
Post a Comment