تخلیص
و تحریر:  اسرار حسن 
تاریخ:  ٥ اگست ٢٠١٧ 
با وجودکے نہرو نے ایٹلی (Attlee) کو جو کچھ کہا تھا، اسکے باوجود اس نے کشمیر
کے پرائم منسٹر مہاجن کو خط لکھ کر اسے قائد اعظم سے ملنے اور کشمیر میں خانہ جنگی
کی صورت حال پر بات کرنے سے منع  کیا-   نہرو نے مہاجن کو لکھتے ہوۓ کہا، "میں
نہیں سمجھتا کہ آپکو لاہور جا کر مسٹر جناح سے ملنے کی کوئی ضرورت ہے-  ہمارا موقف بلکل clear ہے اور اس میں کسی بحث
مبا حثہ  کی گنجایش نہیں ہے-  یہ بات بلکل کلیر  ہے کہ کشمیر میں امن و امان کی بحالی تک کوئی
استصواب راۓ ممکن نہیں ہے اور امن و اما ن کی صورت حال آیندہ  چند مہینوں تک ممکن نظر نہیں آتی ہے- " (١ ( نہرو نے شیخ عبدللہ کو بھی پاکستان جانے اور جناح سے
ملنے کے لئے منع  کیا-  [٢]
مہاتما گاندھی سے جب لوگوں نے پوچھا کہ "کیا وہ اہنسا (غیر تشدد) پر اپنا  اعتماد کھو چکے ہیں اور کشمیر میں ہندوستانی
افواج کی موجودگی کو وہ صحیح سمجھتے ہیں؟" تو انہوں نے کہا "میری کوئی
حیثیت نہیں ہے- میرا کہا کوئی نہیں سنتا- میں نے اپنی سر براہی میں ایک 'شانتی سینا'
لیکر پاکستان جانے کی پیش کش کی لیکن نہرو کی حکومت نے اپنی رضا منڈی دینے سے
انکار کر دیا-" [٣]
نہرو نے اپنے ایک تجربہ کا ر اور ماہر سکھ 
جنرل کلونت سنگھ کو کشمیر بھیجا کہ وہ وہاں سا رے ہندوستانی افواج کی کمان
اپنے ہاتھوں میں لیکر بارہ مولا سے سا رے غیر ملکی باغیوں کو نکا ل باہر  کریں  اور
جہلم روڈ سے کوہالہ تک کا علاقہ اپنے ہاتھوں میں لیکر وہاں مکمّل امن و امن قایم
کریں - 
١١ نومبر کو نہرو بذات خود سرینگر پہنچے- وہاں ہندوستانی افواج اور کشمیری
عوام کو سراہتے ہوۓ کہا "مجھے کشمیری عوام پر فخر ہے کہ انہوں نے کشمیر کو
ڈوبنے سے بچا لیا اور اپنے مادرے وطن ہندوستان کی عزت و وقار کو بچا  لیا"-[٤]   کشمیر میں موجودگی کے دوران نہرو کو یہ بھی
پتہ چلا کہ ٥ نومبر کو پانچ ھزار (٥٠٠٠) جموں کے مسلمانوں کو انکے گھروں سے نکا ل
کر، ٹرکوں میں بٹھا کر جموں سے نکال باھر کیا گیا-  جوں  ہی
وہ کشمیر  کی سرحد سے باھر نکلے انھیں
پنجاب کے راشٹریہ سیوک سنگھ  (RSS) کے
غنڈوں نے اپنے بندوقوں کا نشانہ بنا ڈالا-
Attlee نے نومبر میں دو بارہ  نہرو کو
یہ کہتے ہوۓ ٹیلیگرام کیا کہ اسکے خیال میں کشمیر مسلہ کا ایک فوری اور بہتر حال
یہ ہے کہ کشمیری عوام کی مرضی جاننے کے لئے بین الاقوامی کورٹ اف جسٹس کی خدمات
حاصل کی جائے-  نہرو نے جواب دیتے ہوۓ کہا-
"کشمیر سے متعلق اپکا پیغام ملا-  میں
مشکور ھوں- لیکن میں نہیں سمجھتا کہ بین الاقوامی کورٹ آف جسٹس اس معاملہ کے لئے
صحیح ذریع ثابت ہوگی-" [٥ ] 
نہرو کسی قیمت کشمیر کو کھونا نہیں چاہتے تھے-  نہرو کو ایک بڑا شاک اس وقت لگا جب ما ؤنٹ بیٹن
نے نہرو کو یہ بتایا کہ خود اںکا  ایک
ساتھی 'سری پرکا سہ'  (Sri Prakasa) جو اسوقت پاکستان میں ہندوستان کا
سفیر متعین تھے  وہ کشمیر کو پاکستان کے
ساتھ الحاق کرنے پر رضا مند تھے - نہرو نے پرکا سہ سے باز پرس کرتے ہوۓ کہا-  "مجھے سخت تعجب ہوا جب ما ونٹ بیٹن  نے کشمیر سے متعلق تمہارے خیالات بتا ۓ کہ ھر
جانب امن و امان کا واحد راستہ کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے میں ہے"-[٦]  کشمیر کی لمبی جنگ کا اثر ہندوستان کی مسلسل
گرتی ہوئی معاشی حالت پر پڑنا  شروع ہوا تو
ہندوستان کے عوام گاندھی جی کے پاس اپنی اپیل لیکر آنے لگے-  ٢٥ 
دسمبر  کو گاندھی جی نے کشمیر کی
جنگ کا ایک حل پیش کیا- "کیا ہم خود اس قابل نہیں کہ خود بیٹھ کر اس مسلہ کا
حل تلاش کریں؟  ھر کسی کو اپنی غلطی تسلیم
کرنی چاہیے-  میرا مشورہ ہے کہ ہندوستان
اور پاکستان خود ایک جگہ مل بیٹھیں اور اسکو حل کریں-  مہاراجہ کشمیر اس میں پارٹی نہ بنیں-  اگر 
ہند و پاکستان ایک ثا لثی چاہتے ہیں 
تو کسی ایک کو اپنی رضا منڈی سے مقرّر کر سکتے ہیں[٧] -
کشمیر کے مسلہ کو حل کرنے کی یہ مہاتما گاندھی کی آخری کوشش تھی جس میں انہوں
نے خود کو  ثالثی  کا رول ادا کرنے کی پیش کش کی تھی-  اسکے عوض انھیں اپنے ساتھیوں سے الفاظ
تشککر  کے بجاۓ انکی ناراضگی کا تحفہ
ملا-  "مجھے کشمیر کے معاملہ میں
بولنے پر شکریہ کے بجاے سخت تنبیہ کی گئی ہے-"  مہاتما نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا -"  اگر شیخ عبدللہ اقلیت کو اکثریت کشمیریوں کے
ساتھ لیکر نہیں چل سکتے تو کشمیر کو صرف فوجی طاقت کے بل بوتے پر نہیں بچایا جا
سکتا ہے"[٨]-  کشمیر کے ہندو پنڈتوں
کی اکثریت شیخ عبداللہ پر اپنا  
اعتماد  کھو چکی تھی اور پنڈت نہرو
کو کشمیر کی وزارت اعلی پر شیخ عبدللہ کی جگہ کسی کشمیری پنڈت کو مقرّر کرنے کے
لئے بضد تھے-  اس وقت اگر پنڈت نہرو مہاتما
گاندھی کی کشمیر قضیہ پر  ہند و پاکستان کے
درمیان ثا لثی کی پیش کش کو مان  لیتے تو  بعد میں تین جنگوں اور تقریباً پچاس ہزار
کشمیری جانوں کے ضیا ع سے بچ جاتے-  مہاتما
گاندھی کی ان کوششوں کا نتیجہ مثبت کے بجا ۓ منفی ہوتا گیا اور ناراض ہندو طبقہ
گاندھی جی کو محمّد گاندھی کا نام دینے لگے- 
بلآخر ٣٠ جنوری ١٩٤٨ بروز جمع ایک ہندو برہمن ناتھو رام گوڈسے نے مہاتما کے
سینہ پر تین گولیاں داغ کر اہنسا کے پوجاری کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاموش کر دیا-  اور اسکے ساتھ ہی کشمیر قضیہ کی کوشش بھی ہمیشہ
کے لئے ختم کرنے کی کوشش کی گئی – 
لیکن کشمیر کی جنگ برابر  رہی اور
روزانہ سیکڑوں کی تعداد میں لوگ ہندوستانی فوج کے ہاتھوں مرتے رہے اور زخمی ہوتے
رہے-  ہندوستان کے کئی یک  سنجیدہ صفت لیڈر اس متعلق  متفککر تھے- 
ان میں ایک چکرورتی راج گوپال اچاریہ تھے 
جو اندنوں مغربی بنگال کے پہلے گورنر تھے- 
وہ کشمیر میں نہرو کی جانب سے ہندوستان کی بیش بہا ء  ذرایع کا بے دریغ ضیاع بلکل پسند نہ تھا-  چند مہینوں بعد جب نہرو نے چکرورتی راج گوپال اچاریہ
کو ہندوستان میں ماؤنٹ بیٹن کی جگہ لینے کی درخواست کی تو چکرورتی نے نہرو کو دبے
لفظوں میں مشورہ دیا  کہ وہ خود ہندوستان
کے پہلے گورنر جنرل اینڈ ولبھ بھائی پٹیل وزیر اعظم  مقرر ھوں- 
نہرو نے فورن یہ مشورہ رد کر دیا-
نہرو اکثر تنہائی میں ہندوستان کی جنگ آزادی پر غور کرتے تھے-  ماؤنٹ بیٹن کو الوادع  کرتے ہوۓ انہوں نے کہا: "ہو سکتا ہے کہ
ہملوگوں نے غلطیاں کی ھوں—آپ نے اور میں نے—لیکن مجھے یقین ہے کہ ہملوگوں نے جو
کچھ کیا وہ ہندوستان کے لئے صحیح سمجھ کر کیا-"[٩] 
مزید
نہرو نے اپنا دل کھولتے ہوۓ اپنے جگری مسلمان دوست، نواب بھوپال کو آزادی کے چند
ہفتوں بعد ان کو لکھتے ھوۓ کہا: ان الفاظ کو نہرو ہی کی زبان میں کہنا بہتر ہوگا-
مندرجہ پورا متن خود اپنی تشریح ہے-  
"It has been our
misfortune … the misfortune of India and Pakistan, that evil impulses triumphed
…. I have spent the greater part of my adult life in pursuing and trying to
realize certain ideals …. Can you imagine the sorrow that confronts me when I
see after more than thirty years of incessant effort the failure of must that I
longed for passionately?....I  know that
we have been to blame in many matters…. Partitition came and we accepted it
because we thought that perhaps that way, however painful it was, we might have
some peace… Perhaps we acted wrongly.  It
is difficult to judge now.  And yet, the
consequences of that partition have been so terrible that one is inclined to
think that anything else would have been preferable …All my sense of history
rebels against this unnatural state of affairs that has been created in India
and Pakistan… There is no settling down to it and conflicts continue.  Perhaps these conflicts are due to the folly
or littleness of those in authority in India and Pakistan…. Ultimately I have
no doubt that India and Pakistan will come close together…. Some kind of
federal link… There is no other way to peace. The alternative is ….war.” [10].
References:
1.       Nehru to
Mahajan,30 Oct.1947, SWJN(2), 4, pp.292-93.  
2.       Nehru  to Sheikh Abdullah, 1st Nov.1947,
ibid. p.300.
3.       Gandhi
prayer meeting 5 Nov.1947, CWMG, 89, pp.480-81.
4.       Nehru to
Shk.Abdullah, 4 Nov. 1947 SWJN(2), 4, pp.318-19
5.       Nehru to
Attlee, 23 Nov. 1947, ibid. pp.338-39.
6.       Nehru to
Sri Prakasa 25 Nov. 1947, ibid. pp.346-47.
7.       Gandhi
Prayer Meeting speech 25 Dec.1947, ibid. p.298.
8.       Gandhi Prayer Speech 29 Dec. 1947, ibid.
pp.318-19.
9.       Nehru
speech to Mountbatten 20 Jun. 1948, ibid. pp.358-60. 
10.     Nehru to Nawab of Bhopal, 9 July 1948, ibid.
pp.5-6. 
SWJN = Selected Works of Jawaharlal Nehru.
CWMG = Collected Works of Mahatma Gandhi.