RIGHTEOUS-RIGHT

Help one another in righteousness and pity; but do not help one another in sin and rancor (Q.5:2). The only thing necessary for the triumph of evil is for good men to do nothing. (Edmond Burke). Oh! What a tangled web we weave, When first we practice to deceive! (Walter Scott, Marmion VI). If you are not part of the solution …. Then you are part of the problem. War leaves no victors, only victims. … Mankind must remember that peace is not God's gift to his creatures; it is our gift to each other.– Elie Wiesel, Nobel Peace Prize Acceptance Speech, 1986.

Wednesday, October 18, 2017

غیرمستحکم پاکستان اور اسکے اسباب

غیرمستحکم پاکستان اور اسکے اسباب
تحریر:  اسرار حسن
تاریخ:  ١٨  ا کتوبر ٢٠١٧

مندرجہ ذیل چار حالات نے پاکستان کو ایک مستحکم اور متحد ملک ہونے سے روکے رکھا ہے-
(١)    پاکستان کی سیاسی شخصیتوں نے پاکستانی قوم میں قومی تشخص اور قومی اتحاد پیدا کرنے سے قاصر رہی ہیں-  گزشتہ ٧٠ سال میں پاکستان کے تھنکرس اور سیاسی منتظم یہ فیصلہ نہ کر سکے کہ پاکستان ایک اسلامی اسٹیٹ ہے یا سیکولر اسٹیٹ ہے- پاکستان کا دستور اس تذبذب کا ترجمان ہے- پاکستانی پہلے مسلم ہیں، سندھی اور پنجابی اسکے بعد ہیں یا اول و آخر صرف پاکستانی ہیں؟
         پاکستانی فوج کے لئے پاکستان کی پہچان صرف دفاعی ہے- یعنی مستقل ہندوستان دشمنی کے باعث پاکستان کی بقا و سلامتی لازمی ہے-  سیاسی زعماء نے کبھی بھی پاکستانی فوج کے اس تصوّر کو نفی نہیں کیا-  نتیجہ ہمارے سامنے ہے جسکا بیان اوپر کیا جا چکا ہے-
(٢)    دوسرا نکتہ پاکستان کی قومی سلامتی کا نعرہ ہے-  یہ سوال کہ پاکستانی افواج کے لئے قومی سلامتی ہندوستان دشمنی میں مضمر ہے یا سیاسی اور سول سوسائٹی کے ترقی پسندانہ خیالات میں جو پاکستانی افواج کے خیالات سے مختلف ہیں-  یہ مسلہ پاکستان کے دانشور اب تک فیصلہ نہ کر سکے ہیں-  اور اس تذبذب کی جھلک پاکستانی دستور میں ملتی ہے-
         پاکستانی فوج اپنے اصول پر کاربند ہو کر تقریباً چھ لاکھ نفری کی فوج اور تقریباً ١٠٠ عدد نیوکلیر بم رکھتی ہے اور قومی بجٹ کا تیس فیصد کی مستحق ہے-  سول انتظامیہ کرپٹ ہونے کے سبب فوج کی آمدن اور اخراجات کی پارلیمان میں کویی باز پرس نہیں ہے-  افواج پاکستان پاکستان کی خارجہ پالیسی، قومی سلامتی، اور نیوکلیر معاملات کو بغیر شرکت غیرے دیکھتی ہے-
(٣)    پاکستان ایک غیر معمولی مملکت بن چکا ہے- اپنی معاشی اور ملکی سلامتی کی پالیسیوں کو بروے کار لانے کے لئے اسلامی شدّت پسند جہادی اور غیرملکی غیر سرکاری عناصر کو استعما ل کرتا ہے-  پاکستان کے محل و وقوع نے اسے بین لاقوامی سیاسی اسٹریٹجی کی اہمیت دے رکھا ہے- اسکے باڈر سینٹرل، جنوب  اور وسطی اشیا اور چین کے لئے خلیج عرب اور بحر ھند میں داخلہ کے لئے دروازہ کی حیثیت رکھتے ہیں-
(٤)    پاکستان کے غیر مستحکم ہونے کا چوتھا سبب اسکے نسلی گروہوں میں ہم آہنگی کا فقدان ہے- ٧٠ سال گزرنے کے باوجود پاکستان کی سیاسی سسٹم اور حکمران سیاسی پارٹیان آپس میں نسلی ہم آہنگی پیدا نہ کر سکی ہیں- پنجاب آبادی میں سب سے بڑا صوبہ ہے- پاکستان کی مجموعی آبادی کا ساٹھ (٦٠%) فیصد صرف پنجاب میں آباد ہے- افواج پاکستان میں اسکا حصّہ ٧٠% ہے- اور پورے صوبہ میں نسلی ہم آہنگی پائی جاتی ہے- پنجاب کے مد مقابل بلوچ، سندھی، اور پشتون پاکستان کے  ترقیاتی منصوبوں میں اپنے آپ کو کم تر پاتے ہیں- اس صورت حال نے ان صوبوں میں پنجاب سے تعصب کا عنصر پیدا کر رکھا ہے- پاکستان کی قومی ترقیاتی منصوبوں میں صوبوں کی حق تلفی نے ان میں ھر طرح کی نسلی، قبایلی، مذہبی، سماجی اور معاشی منافرت پیدا کر رکھا ہے-
(٥)    افواج پاکستان اور سیاسی زعماء دونوں نے مندرجہ بالا پاکستانی انحطاط کے چار نکات کو پیدا کرنے  اور انکو جاری رکھنے کے ذمہ دار ہیں-  پاکستان کی برسراقتدار پارٹیاں پاکستان کی سیاست کو خاندانی ورثہ کے طور پر چلاتی رہی ہیں نہ کہ جمہوری ادارہ سمجھ کر چلاتی رہی ہیں- انہوں نے کبھی بھی ترقی یافتہ پالیسیوں کو ملک کی معاشی اور معاشرتی ترقی کے لئے استمعال نہیں کیا- ١٩٠٠ کی دہائی  میں بےنظیر بھتو اور نواز شریف دونوں کو دو بار وزارت عظمیٰ ملا اور دونوں دو بار کرپشن اور بد انتظامی کے باعث وزارت عظمیٰ کے نا اھل قرار دیے گئے- ان حالت نے پاکستان میں ھر قسم کا انتشار پھیلانے والوں اور مذہبی شدّت پسندوں کو پھل پھولنے کا موقع فراہم کر رکھا ہے- 

Saturday, August 26, 2017

پاک-بھارت-افغانستان: ایک سیاسی بھنور


تحریر و تخلیص :  اسرار حسن
تاریخ: ٢٤ اگست ٢٠١٧

پاکستان کے داخلی حالات نے ستر (٧٠) سال بعد  ٢٨ جولائی ٢٠١٧ کو ایک کروٹ لی ہے-  ملک کی تاریخ میں  پہلی بار ایک منتخب لیکن  کرپٹ وزیر اعظم کو اسے سپریم کورٹ نے دستور پاکستان کی خلاف ورزی پر  وزارت عظمیٰ کا نا اہل قرار  دے دیا ہے- وفاقی پارلیمان میں صرف  وزیر اعظم  کی تبدیلی عمل میں آئی ہے- پورا پارلیمان اور وفاقی کابینہ کسی نہ کسی  کرپشن میں ملوث ہونے کے با وجود  اپنی سابقہ پوزیشن میں برقرار ہے-  باور کیا جاتا  ہے کہ اس ادھورے لیپا پوتی سے موجودہ وفاقی اور صوبائی انتظامیہ کی بے راہ روی اور کرپشن پر اسکا کوئی مثبت  اثر نہیں ہوگا- حالیہ خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ نواز لیگ پارلیمان میں اپنی اکثریت کے بل بوتے پر دستور میں ایسے شقوں کو کالعدم کرنے کی کوشش کر رہی ہے جن سے آیندہ نواز پارٹی کو  نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو سکتا ہے- ملک کے داخلی حالا ت میں سدھار  کے لئے قانون ساز اداروں کا کم از کم ایک  سے دو  دہائی تک سنجیدہ اور مخلص ہونا ضروری ہے-  مشکل یہ ہے کہ قانون ساز پارلیمان اور اداروں کی  ابتداء  ہی سے  ان خطوط  پر ٹریننگ نہیں ہوئی ہے- قومی سوچ بلکل بدل چکی ہے- حب الوطنی کی جگہ صوبائییت  نے لے رکھی  ہے- ھر صوبہ صوبائی پارٹی کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے- پنجاب کو وفاقی اور صوبا ئی  پارلیمان کے علاوہ فوج میں بھی برتری حاصل ہے-
گزشتہ ستر سالہ پاکستان کی کارکردگی یہ ثابت کرتی ہے کہ اجتماعی طور پر پاکستان انحطاط پذیر رہا ہے-  پانی، پاور، بجلی، گیس، علاج و معالجہ اور تعلیم  کافقدان پاکستان میں  ابتداء ہی سے قایم و دایم  ہے- پاکستان کی ساٹھ فیصد آبادی دیہی ہے اور کاشتکاری انکا پیشہ ہے- پھر بھی پاکستان اجناس اور غلّہ کی پیداوار میں خود کفیل نہیں ہے-  جاگیرداری نظام نے ملک بھر میں  پیداواری زمین کو بانٹ کر بنجر بنا رکھا ہے- لوٹ کھسوٹ سے جو کچھ بچتا ہے وہ سیلاب اور زلزلہ کی نظر ہو جاتا ہے- ٢٠٠ ملین کی آبادی میں صرف ١.٨ (ایک عشاریہ آٹھ) ملین آبادی ٹیکس دہندہ ہے- زمینداروں پر کوئی  ٹیکس نہیں- تعلیم کا تخمینہ صرف ٥٧ فیصد  پورے جنوبی اشیا میں سب سے کم ہے- پاکستان کی فوجی قوت، نیوکلیئر صلاحیت، اسکی بین الاقوامی (geo-strategic) محل و وقوع ، اور پڑوسی  ملکوں پر اسکا اثر و رسوخ یہ سب بےاثر اور بیکار ہو جاتے ہیں اگر اسکی معاشی حالت زبوں حال، تعلیم کا فقدان، اور ملک کی نو جوان آبادی بے روز گار ہو- ١٩٩٠ کے بعد پاکستان میں معاشی اور سماجی ترقی و اصلاحات کے جانب کوئی  کوشش نہیں کی گئی- ملک کا صاھب ثروت طبقہ  نہ تو کوئی  ٹیکس دیتا ہے نہ ہی ملک کی انڈسٹریز اور زراعت کو جدید بنانے کے لئے کوئی  انویسٹمنٹ کرتا ہے-
پاکستان  گزشتہ بیس سال سے IMF کے قرض پروگراموں پر عمل پیرا ہے- لیکن IMF کے متعین کردہ اصلاحات پر حکومت وقت نے کبھی عمل نہیں کیا- دیگر یوروپی ممالک نے پاکستان کو کثیر رقم وقتاً فوقتاً فراہم کیا لیکن پاکستان نے کبھی بھی انکے متعین کردہ پروگرام پر عمل در آمد نہیں کیا- ٢٠٠١ء  سے  ٢٠١٠ء  کے دوران امریکا نے کل  ٢٠ء٥  (20.5) بلین ڈالر پاکستان کو دیا- جرمنی، برطانیہ، جاپان کے علاوہ world bank اور Asian Development Bank  نے کل ملا کر  ١٠ ء ٥ بلین کی امداد پاکستان کو دیا- امریکا نے ٢٠٠٥ء اور ٢٠١٠ء میں بھی سخاوت کا مظاہرہ کیا جب پاکستان کے شمال مغرب میں زلزلہ اور سیلاب نے ملک کے ہمہ جہتی  (infrastructure) سہولتوں اور installations کو تباہ کر دیا تھا-  لیکن پاکستان کو بیرونی ملکوں اور اداروں سے کثیر رقم امداد میں ملنے کے باوجود اسکی معاشی ترقی اور سماجی خوشحالی پر کویی اثر نہ پڑا-
پاکستان سا ری دنیا میں دہشت گردی کی آماجگاہ سمجھا جاتا ہے جہاں طبقاتی، نسلی، مذہبی، اور ھر قسم کی گروہی منافرت پائی جاتی ہے-  اس صورت حال نے وسطی اشیا، افریقہ، مڈل ایسٹ کے دھشتگرد تنظیموں کے لئے پاکستان  ایک اچھی مارکیٹ میں تبدیل ہو چکا  ہے- تحریک طالبان پاکستان اور طالبان افغانستان کے علاوہ سپاہ صحابہ، جیش محممدی،  لشکر طیبہ، القاعدہ، اسلامک اسٹیٹ  وغیرہ وغیرہ  کی تنظیمیں یہاں سر گرم عمل ہیں-  داخلی حالا ت کا یہ ایک مختصر منظر نامہ ہے-
خارجی منظر نامہ کچھ زیادہ ہی تشویش ناک ہے-  پاکستان کے خارجی امور تیزی سے انحطاط  کا شکار ہیں-خارجی امور میں ابتری کا ایک بڑا سبب پاکستان کی ہندوستان دشمنی ہے جو کشمیر پر ہندوستان کے قابض ہونے سے شروع ہوئی-  دوسرا بڑا سبب سول انتظامیہ اور ملٹری انتظامیہ کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے  اور دونوں کے مقاصد کا ٹکراؤ ہے-  مثلا پاکستان ملٹری ابتداء  ہی سے ہندوستان دشمنی کے اصول پر گامزن ہے (جسکا واحد سبب مقبوضہ کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ ہے) جبکہ سول انتظامیہ بین الاقوامی حالا ت کے پیش نظر ہندوستان کے ساتھ پڑوسی ہونے کے ناتے تجارت اور باہمی تعلقات عامہ کو بہتر بنانے کی پالیسی پر گامزن ہے-
پاکستان کی خارجہ پالیسی  پاکستان کی داخلی امن و اما ن اور ملکی سلامتی کی ضامن نہیں  رہی ہے- بلکہ کبھی کبھی تو داخلی امن و امان اور ملکی سلامتی کے ذرایع کو پاکستان کی خارجہ قربان گاہ پر قربان کرنا پڑا ہے-   پاکستان کی سا ری توجہ اس بات پر مرکوز رہی ہے کہ افغانستان میں بڑھتی ہوئی ہندوستانی اثر و رسوخ کو کسطرح نفی کیا جا سکے- خارجہ پالیسی کا دوسرا جز  یہ رہا ہے کے افغانستان میں بھارت کو امریکی حمایت اور امریکی امداد سے کسطرح روک رکھا جائے-
کشمیر کے لائن اف کنٹرول پر جھڑپ کا سلسسلہ برسوں سے  جاری ہے- یہ ابھی ختم نہیں ہوا کہ مغربی سرحد پر دوسرا پڑوسی ملک افغانستان کے ساتھ جھڑپ  کی آنکھ مچولی ٩/١١ کے فورن بعد  شروع ہو گئی  ہے- پاکستان اور افغانستان دونوں ملکوں میں پشتون نسل کی مشترک آبادی ہونے کے سبب انکے تعلقات صدیوں سے قایم ہیں- اس تعلق میں انقلابی کیفیت اس وقت شروع ہوئی جب افغانستان میں سوویت روس کے تسلّط کو ختم کرنے کے لئے امریکا داخل ہوا اور پاکستان دو ساندھوں کی اس جنگ میں کود پڑا-
اسوقت سے لیکر آج تک افغان پالیسی  میں پاکستان تضادات کا شکار رہا ہے- پاکستان کابل میں دوبارہ طالبان حکومت کو دیکھنا نہیں چاہتا- وہ کابل میں ایک مخلوط پارٹی حکومت  کو دیکھنا چاہتا ہے- لیکن ساتھ ہی غیر پشتون ناد رن الائنس (Northern Alliance) کو دوبارہ پاور میں دیکھنا نہیں چاہتا- اور کابل کی حکومت پر بھارت کا بھی کوئی  اثر و رسوخ دیکھنا نہیں چاہتا- پاکستان کی یہ دونوں خواھشا ت  نا قابل عمل اس لئے ہیں  کہ غیر پشتون آبادی یہاں ٤٠% فیصد سے بھی زیادہ ہے جس میں تاجک. ازبک، اور ہزارہ نسل کے لوگ شامل ہیں-  بھارت کے ساتھ افغانستان کا تعلق پاکستان بننے کے پہلے سے رہا ہے- پاکستان افغانستان کی حکومت میں بھارت کا کوئی  رول دیکھنا نہیں چاہتا- ان خواہشات کو پورا کرنے کے لئے پاکستان افغانستان میں پاک-افغان طالبان اور دیگر جہادی تنظیموں کی دہشت گردی کو استمعال کرتا ہے- پاکستان کو یہ بھی خوف ہے کہ افغانستان اگر پشتون اور غیر پشتون میں تقسیم ہوا تو اسکا سب سے برا اثر پاکستان پر پڑیگا-
بھارت ایک عرصہ سے اس خطہ کا ایک معاشی پاور رہا ہے- اور افغانستان کی معاشی ترقی میں ایک اہم انویسٹر سمجھا جاتا ہے- ٢٠ جولائی ٢٠١١ء  کو سیکرٹری اف اسٹیٹ ھلیری کلینٹن نے بھارت کو مشورہ دیا کہ وہ اس خطہ میں زیادہ اہم رول ادا کر سکتا ہے- اس نے کہا:
“India’s leadership has the potential to positively shape the future of the Asia-Pacific.”                                                  
بھارت کے ساتھ امریکا کا یہ رومانس پاکستانی لیڈروں اور فوج کے لئے با عث تشویش تھا- اسی بات کو چھ سال بعد موجودہ امریکن صدر،  ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں امن و اما ن قایم کرنے کا کا م  بھارت کے ہاتھوں سونپنے کا عندیہ اپنے ٢٢ اگست  ٢٠١٧   کے پریس کانفرنس میں دیا ہے-
جس دن پاکستان وجود میں آیا اسی دن سے پاکستان اور بھارت کے درمیان  مسلہ کشمیر کو لیکر معاندانہ تعلقات جاری ہے اور بھارت کے ساتھ تین جنگوں کے باوجود "مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی"-  پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بنیاد ہی بھارت دشمنی سے شروع ہوئی- اور پاکستان کو نقشہ عالم سے مٹانے کی بھارتی  پالیسی برابر جاری ہے- مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے میں بھارتی کردار ہم سب کے سامنے ہے-  غرض  پاک و بھارت دونوں ممالک  ایک دوسرے کے ساتھ اپنی دشمنی کو کامیاب بنانے کے لئے بیرونی امداد اور بیرونی طاقتوں کا سہارا لیتے رہے ہیں-  موجودہ سیاست میں دونوں کی خارجہ پالیسی کو اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے- یہ منظر نامہ اس بات کی تصدق کرتا ہے کہ بھارت کو افغانستان کے معاملات سے الگ رکھنے کی پاکستان کوشش کسی طرح بھی قابل عمل نہیں ہے- بھارت افغانستان میں شروع ہی سے ایک معاشی پاور سمجھا جاتا ہے- شروع ہی میں بھارت افغانستان میں ١،٥ (1.5) بلین ڈالر لگا چکا تھا- افغانستان کے امدادی ممالک جن میں  امریکا ، یورپ اور جاپان شامل ہیں بھارت کو ایک قابل عتماد اور اہم donor سمجھتے ہیں-
دونوں غریب اور پسماندہ ملک ہونے کے باوجود دونوں نے اپنے ملک کو ایک دوسرے کے لئے  نیوکلیر  ملک بنا رکھا ہے-  پاکستان کی اندرونی اور بیرونی سیاست میں بھارت کی بڑھتا  ہوا  اثر و رسوخ کو روکنے یا کم کرنے کے لئے پاکستان کو امریکا کی مخالفت کے باوجود، افغان طالبان کی حمایت حاصل کرنی پڑی اور غیر سرکاری طور پر اسامہ بن لادن کو اپنے یہاں خفیہ پناہ دینا پڑا- افغانستان میں بھارت کی بڑھتی ہوئی اثر و رسوخ کی سدباب کے لئے طالبان کی مدد اور حمایت ضروری ہو گئی تھی- دوسرے بارک اوباما نے آتے ہی افغانستان سے امریکن انخلاء کے پروگرام پر عمل در آمد شروع کر دیا تھا- افغانستان میں امریکن انخلاء کو پر کرنے اور افغانستان میں بھارت کی بڑھتی ہوئی اثر و رسوخ کو روکنے کے لئے پاکستان کو طالبان اور دیگر جہادی تنظیموں کی حمایت ضروری ہو گئی تھی- روز بروز  طالبان اور جہادی تنظیموں کا امریکنوں پر حملہ اور انکے انخلاء میں روکاوٹوں نے امریکن انخلاء  کو ناکا م  بنا رکھا تھا- امریکن انخلاء اسوقت تک ممکن نہیں جب تک افغانستان میں امن و امان قایم نہیں ہوتا-
 بار بار امریکی تنبیہ کے باوجود پاکستان طالبان اور جہادی تنظیموں کی پشت پناہی سے دست بردار ہونے سے معذور رہا- بالآخر موجودہ امریکن صدر،  ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں امن و اما ن قایم کرنے کا کا م  بھارت کے ہاتھوں سونپنے کا عندیہ اپنے ٢٢ اگست کے پریس کانفرنس میں دیا ہے- یہ پاکستان کے لئے تشویش کا  باعث ہے-
مسلہ افغانستان پر پاکستان ملٹری کا سب سے اہم موقف یہ ہے کہ امریکی انخلاء کے بعد افغانستان کی صورت گری میں بھارت کا کویی نمایا ں مقام حاصل نہ کر سکے- لیکن کابل میں بھارت کا امدادی اور اصلاحی رول ١٩٤٧ سے ہی جاری ہے، جسے پاکستان نظر انداز نہیں کر سکتا- مثلن پاکستان نے افغانستان کے لئے بھارتی امدادی اور تجارتی ساز و سامان کی ترسیل کو ٩/١١ کے بعد بند کر دیا تھا- بھارت نے پاکستان کی سر زمین کو با ئی پاسس کرتے ہوۓ ایران کی سر زمین کا متبادل راستہ ڈھونڈ نکالا- بھارت نے ١٥٠ ملین ڈالر خرچ کر کے افغانستان کے شہر دلآرام سے ایرانی شہر زارنج تک ایک روڈ تعمیر کرڈالا جس نے ایرانی پورٹ چا بہار تک کی رسایی کو ممکن بنا دیا- جنوری ٢٠٠٩ سے یہ روڈ مکمّل فنکشنل ہونے کے بعد افغانستان، ایران اور ہندوستان کا سارا امپورٹ ایکسپورٹ چا بہار کے پورٹ  سے ہونے لگا- اس پورٹ سے قبل افغانستان کی سا ری در آمد اور بر آمد کا واحد ذریعہ کراچی پورٹ تھا-  کراچی پورٹ پر تاخیری حربہ اور دیگر پریشانی سے افغانی نالاں تھے اور برسوں سے متبادل پورٹ  کی تلاش میں تھے-
  تیزی سے بگڑتی ہوئی بین الاقوامی الجھاؤ میں پاکستان کو لا محالہ دوغلی پالیسی پر عمل دار آمد کرنا  پڑ  رہا ہے-  حالت اس نہج کو پہنچ چکے ہیں کہ پڑوسی ممالک جن میں بھارت، افغانستان، ایران، اور وسطی  ایشیا میں روسی فیڈریشن کے ممالک پاکستان کا اعتماد کھو تے جا رہے ہیں- یہ کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی-  ملک کی داخلی اتحاد  مختلف قسم کی تفرقہ بندییوں  کا شکار ہو چکی ہے- مذہبی، سیاسی، نسلی، قبایلی اور صوبائی فرقہ واریت نے قوم، ملک اور پاکستانی معاشرہ کو بری طرح متاثر کر رکھا ہے- ملک کے چاروں صوبے چار قومیتوں (سندھی، پنجابی، بلوچ اور پختون) میں منقسم ہیں- FATA جسے اردو میں  فاقی منتظم شدہ قبائیلی علاقہجات)کہا جاتا ہے یہ پاکستان کے شمال-مغرب میں سات (٧) عدد قبائلی ایجینسیوں اور چھ (٦) عدد سرحدی علاقوں پر مشتمل ہے- انکی حیثیت نیم آزادانہ ہے- پاکستان کی وفاقی حکومت عہد برطانیہ کے قانون “Frontier Crimes  Regulations” کے تحت انکا نظم و نسق دیکھتی رہی ہے- اسکی سرحدیں ایک طرف بلوچستان اور پختونخواہ اور دوسری طرف افغانستان سے ملتی ہیں - اسکی کل آبادی پشتون نسل پر مشتمل ہے-  پاکستان میں پشتون نسل کے لوگ  پختونخواہ میں صد فیصد  اور افغانستان میں ساٹھ (٦٠) فیصد پشتون  نسل کے لوگ آباد ھیں-  FATA کا تقریباً سارا علاقہ پاکستانی، افغانی اور دیگر  ملکوں کے دہشت گرد  تنظیموں کا آماجگاہ  بن چکا ہے کیونکہ عملی طور پر یہاں قبائیلی نظام را یج ہے-  ٢٠٠٨ء میں پریذیڈنٹ زرداری نے فاٹا کی سٹیٹس (status) کو تبدیل کرنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن اگست ٢٠١١ میں وہ صرف سیاسی پارٹیوں کو فاٹا میں اپنا کھیل  کھیلنے کی اجازت دےسکے اور فرنٹیئر کے برٹش پینل کوڈ میں متعلقہ تبدیلی کر سکے- مجموعی  طور پر  اسکی حیثیت آج بھی وہی ہے جو برطانوی حکومت کے دور میں تھی- آج بھی وہ بغیر کسی پارلیمان کے اور بغیر کسی نمایندگی کے فیڈرل گورنمنٹ کی نگرانی میں ہے-
اب سب سے بڑا سوال ہمارے سامنے یہ ہے کہ پاکستانی عوام ان حالت میں کیا کریں – سول انتظامیہ اور فوج بری طرح ایک بھنور میں پھنس چکی ہے- پاک، بھارت اور افغانستان تینوں پڑوسی ممالک ہیں- یہ گزشتہ صدیوں سے ہیں اور آیندہ صدیوں ساتھ ہونگے- امریکا. یورپ، جاپان، اور دیگر امدادی ممالک دیر سویر چلے جاینگے- لیکن اوپر کے تینوں پڑوسی ممالک کو ہمیشہ ہمیشہ ساتھ رہنا ہے- ایسی حالت میں پاکستانی عوام کے سامنے جو چوائس ہیں وہ محدود ہیں اور خطرے سے خالی نہیں- پاکستان کے عوام میں اور عوامی نمایندوں میں بے پناہ صلاحیتیں موجود ہیں- وہ ان تمام مسائل کو بخوبی  حل کر سکتے ہیں- لیکن مشکل یہ در پیش ہے کوئی مسلہ بغیر ذاتی مفاد کی قربانی کے حل نہیں ہوتا- اور یہی جنس عوام اور عوامی نمایندوں کے پاس فروخت کے لئے نہیں ہے-  اگر یہ پہلے سے موجود ہوتا تو آج یہ مسایل پیدا ہی نہ ہوتے- الله نگہبان-
= X =
                              

Saturday, August 5, 2017

کشمیر: ایک تاریخی ناسور (قسط – ٣)


تخلیص و تحریر:  اسرار حسن
تاریخ:  ٥ اگست ٢٠١٧

با وجودکے نہرو نے ایٹلی (Attlee) کو جو کچھ کہا تھا، اسکے باوجود اس نے کشمیر کے پرائم منسٹر مہاجن کو خط لکھ کر اسے قائد اعظم سے ملنے اور کشمیر میں خانہ جنگی کی صورت حال پر بات کرنے سے منع  کیا-   نہرو نے مہاجن کو لکھتے ہوۓ کہا، "میں نہیں سمجھتا کہ آپکو لاہور جا کر مسٹر جناح سے ملنے کی کوئی ضرورت ہے-  ہمارا موقف بلکل clear ہے اور اس میں کسی بحث مبا حثہ  کی گنجایش نہیں ہے-  یہ بات بلکل کلیر  ہے کہ کشمیر میں امن و امان کی بحالی تک کوئی استصواب راۓ ممکن نہیں ہے اور امن و اما ن کی صورت حال آیندہ  چند مہینوں تک ممکن نظر نہیں آتی ہے- " (١ ( نہرو نے شیخ عبدللہ کو بھی پاکستان جانے اور جناح سے ملنے کے لئے منع  کیا-  [٢]
مہاتما گاندھی سے جب لوگوں نے پوچھا کہ "کیا وہ اہنسا (غیر تشدد) پر اپنا  اعتماد کھو چکے ہیں اور کشمیر میں ہندوستانی افواج کی موجودگی کو وہ صحیح سمجھتے ہیں؟" تو انہوں نے کہا "میری کوئی حیثیت نہیں ہے- میرا کہا کوئی نہیں سنتا- میں نے اپنی سر براہی میں ایک 'شانتی سینا' لیکر پاکستان جانے کی پیش کش کی لیکن نہرو کی حکومت نے اپنی رضا منڈی دینے سے انکار کر دیا-" [٣]
نہرو نے اپنے ایک تجربہ کا ر اور ماہر سکھ  جنرل کلونت سنگھ کو کشمیر بھیجا کہ وہ وہاں سا رے ہندوستانی افواج کی کمان اپنے ہاتھوں میں لیکر بارہ مولا سے سا رے غیر ملکی باغیوں کو نکا ل باہر  کریں  اور جہلم روڈ سے کوہالہ تک کا علاقہ اپنے ہاتھوں میں لیکر وہاں مکمّل امن و امن قایم کریں -
١١ نومبر کو نہرو بذات خود سرینگر پہنچے- وہاں ہندوستانی افواج اور کشمیری عوام کو سراہتے ہوۓ کہا "مجھے کشمیری عوام پر فخر ہے کہ انہوں نے کشمیر کو ڈوبنے سے بچا لیا اور اپنے مادرے وطن ہندوستان کی عزت و وقار کو بچا  لیا"-[٤]   کشمیر میں موجودگی کے دوران نہرو کو یہ بھی پتہ چلا کہ ٥ نومبر کو پانچ ھزار (٥٠٠٠) جموں کے مسلمانوں کو انکے گھروں سے نکا ل کر، ٹرکوں میں بٹھا کر جموں سے نکال باھر کیا گیا-  جوں  ہی وہ کشمیر  کی سرحد سے باھر نکلے انھیں پنجاب کے راشٹریہ سیوک سنگھ  (RSS) کے غنڈوں نے اپنے بندوقوں کا نشانہ بنا ڈالا-
Attlee نے نومبر میں دو بارہ  نہرو کو یہ کہتے ہوۓ ٹیلیگرام کیا کہ اسکے خیال میں کشمیر مسلہ کا ایک فوری اور بہتر حال یہ ہے کہ کشمیری عوام کی مرضی جاننے کے لئے بین الاقوامی کورٹ اف جسٹس کی خدمات حاصل کی جائے-  نہرو نے جواب دیتے ہوۓ کہا- "کشمیر سے متعلق اپکا پیغام ملا-  میں مشکور ھوں- لیکن میں نہیں سمجھتا کہ بین الاقوامی کورٹ آف جسٹس اس معاملہ کے لئے صحیح ذریع ثابت ہوگی-" [٥ ]
نہرو کسی قیمت کشمیر کو کھونا نہیں چاہتے تھے-  نہرو کو ایک بڑا شاک اس وقت لگا جب ما ؤنٹ بیٹن نے نہرو کو یہ بتایا کہ خود اںکا  ایک ساتھی 'سری پرکا سہ'  (Sri Prakasa) جو اسوقت پاکستان میں ہندوستان کا سفیر متعین تھے  وہ کشمیر کو پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے پر رضا مند تھے - نہرو نے پرکا سہ سے باز پرس کرتے ہوۓ کہا-  "مجھے سخت تعجب ہوا جب ما ونٹ بیٹن  نے کشمیر سے متعلق تمہارے خیالات بتا ۓ کہ ھر جانب امن و امان کا واحد راستہ کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے میں ہے"-[٦]  کشمیر کی لمبی جنگ کا اثر ہندوستان کی مسلسل گرتی ہوئی معاشی حالت پر پڑنا  شروع ہوا تو ہندوستان کے عوام گاندھی جی کے پاس اپنی اپیل لیکر آنے لگے-  ٢٥  دسمبر  کو گاندھی جی نے کشمیر کی جنگ کا ایک حل پیش کیا- "کیا ہم خود اس قابل نہیں کہ خود بیٹھ کر اس مسلہ کا حل تلاش کریں؟  ھر کسی کو اپنی غلطی تسلیم کرنی چاہیے-  میرا مشورہ ہے کہ ہندوستان اور پاکستان خود ایک جگہ مل بیٹھیں اور اسکو حل کریں-  مہاراجہ کشمیر اس میں پارٹی نہ بنیں-  اگر  ہند و پاکستان ایک ثا لثی چاہتے ہیں  تو کسی ایک کو اپنی رضا منڈی سے مقرّر کر سکتے ہیں[٧] -
کشمیر کے مسلہ کو حل کرنے کی یہ مہاتما گاندھی کی آخری کوشش تھی جس میں انہوں نے خود کو  ثالثی  کا رول ادا کرنے کی پیش کش کی تھی-  اسکے عوض انھیں اپنے ساتھیوں سے الفاظ تشککر  کے بجاۓ انکی ناراضگی کا تحفہ ملا-  "مجھے کشمیر کے معاملہ میں بولنے پر شکریہ کے بجاے سخت تنبیہ کی گئی ہے-"  مہاتما نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا -"  اگر شیخ عبدللہ اقلیت کو اکثریت کشمیریوں کے ساتھ لیکر نہیں چل سکتے تو کشمیر کو صرف فوجی طاقت کے بل بوتے پر نہیں بچایا جا سکتا ہے"[٨]-  کشمیر کے ہندو پنڈتوں کی اکثریت شیخ عبداللہ پر اپنا   اعتماد  کھو چکی تھی اور پنڈت نہرو کو کشمیر کی وزارت اعلی پر شیخ عبدللہ کی جگہ کسی کشمیری پنڈت کو مقرّر کرنے کے لئے بضد تھے-  اس وقت اگر پنڈت نہرو مہاتما گاندھی کی کشمیر قضیہ پر  ہند و پاکستان کے درمیان ثا لثی کی پیش کش کو مان  لیتے تو  بعد میں تین جنگوں اور تقریباً پچاس ہزار کشمیری جانوں کے ضیا ع سے بچ جاتے-  مہاتما گاندھی کی ان کوششوں کا نتیجہ مثبت کے بجا ۓ منفی ہوتا گیا اور ناراض ہندو طبقہ گاندھی جی کو محمّد گاندھی کا نام دینے لگے-  بلآخر ٣٠ جنوری ١٩٤٨ بروز جمع ایک ہندو برہمن ناتھو رام گوڈسے نے مہاتما کے سینہ پر تین گولیاں داغ کر اہنسا کے پوجاری کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاموش کر دیا-  اور اسکے ساتھ ہی کشمیر قضیہ کی کوشش بھی ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کی کوشش کی گئی –
لیکن کشمیر کی جنگ برابر  رہی اور روزانہ سیکڑوں کی تعداد میں لوگ ہندوستانی فوج کے ہاتھوں مرتے رہے اور زخمی ہوتے رہے-  ہندوستان کے کئی یک  سنجیدہ صفت لیڈر اس متعلق  متفککر تھے-  ان میں ایک چکرورتی راج گوپال اچاریہ تھے  جو اندنوں مغربی بنگال کے پہلے گورنر تھے-  وہ کشمیر میں نہرو کی جانب سے ہندوستان کی بیش بہا ء  ذرایع کا بے دریغ ضیاع بلکل پسند نہ تھا-  چند مہینوں بعد جب نہرو نے چکرورتی راج گوپال اچاریہ کو ہندوستان میں ماؤنٹ بیٹن کی جگہ لینے کی درخواست کی تو چکرورتی نے نہرو کو دبے لفظوں میں مشورہ دیا  کہ وہ خود ہندوستان کے پہلے گورنر جنرل اینڈ ولبھ بھائی پٹیل وزیر اعظم  مقرر ھوں-  نہرو نے فورن یہ مشورہ رد کر دیا-
نہرو اکثر تنہائی میں ہندوستان کی جنگ آزادی پر غور کرتے تھے-  ماؤنٹ بیٹن کو الوادع  کرتے ہوۓ انہوں نے کہا: "ہو سکتا ہے کہ ہملوگوں نے غلطیاں کی ھوں—آپ نے اور میں نے—لیکن مجھے یقین ہے کہ ہملوگوں نے جو کچھ کیا وہ ہندوستان کے لئے صحیح سمجھ کر کیا-"[٩]
مزید نہرو نے اپنا دل کھولتے ہوۓ اپنے جگری مسلمان دوست، نواب بھوپال کو آزادی کے چند ہفتوں بعد ان کو لکھتے ھوۓ کہا: ان الفاظ کو نہرو ہی کی زبان میں کہنا بہتر ہوگا- مندرجہ پورا متن خود اپنی تشریح ہے- 

"It has been our misfortune … the misfortune of India and Pakistan, that evil impulses triumphed …. I have spent the greater part of my adult life in pursuing and trying to realize certain ideals …. Can you imagine the sorrow that confronts me when I see after more than thirty years of incessant effort the failure of must that I longed for passionately?....I  know that we have been to blame in many matters…. Partitition came and we accepted it because we thought that perhaps that way, however painful it was, we might have some peace… Perhaps we acted wrongly.  It is difficult to judge now.  And yet, the consequences of that partition have been so terrible that one is inclined to think that anything else would have been preferable …All my sense of history rebels against this unnatural state of affairs that has been created in India and Pakistan… There is no settling down to it and conflicts continue.  Perhaps these conflicts are due to the folly or littleness of those in authority in India and Pakistan…. Ultimately I have no doubt that India and Pakistan will come close together…. Some kind of federal link… There is no other way to peace. The alternative is ….war.” [10].





References:
1.       Nehru to Mahajan,30 Oct.1947, SWJN(2), 4, pp.292-93.  
2.       Nehru  to Sheikh Abdullah, 1st Nov.1947, ibid. p.300.
3.       Gandhi prayer meeting 5 Nov.1947, CWMG, 89, pp.480-81.
4.       Nehru to Shk.Abdullah, 4 Nov. 1947 SWJN(2), 4, pp.318-19
5.       Nehru to Attlee, 23 Nov. 1947, ibid. pp.338-39.
6.       Nehru to Sri Prakasa 25 Nov. 1947, ibid. pp.346-47.
7.       Gandhi Prayer Meeting speech 25 Dec.1947, ibid. p.298.
8.       Gandhi Prayer Speech 29 Dec. 1947, ibid. pp.318-19.
9.       Nehru speech to Mountbatten 20 Jun. 1948, ibid. pp.358-60.
10.     Nehru to Nawab of Bhopal, 9 July 1948, ibid. pp.5-6.

SWJN = Selected Works of Jawaharlal Nehru.
CWMG = Collected Works of Mahatma Gandhi.

Thursday, July 27, 2017

کشمیر - ایک تاریخی ناسور (قسط ٢)


 تخلیص و تحریر:  اسرار حسن
تاریخ:  ١٦ جولائی ٢٠١٧

٢٦ اکتوبر ١٩٤٧ کو نہرو اور پٹیل کے ایما ء  پر ہندوستان کی پہلی سکھ رجمیںٹ دھلی سے سرینگر پہنچنا شروع ہوگئے -  بارہ مولا میں قبایلی پٹھان حملہ اوروں کو جب سکھ رجیمںٹ کی آمد کا پتہ چلا تو وہ بارہ مولا سے نکل کر مظفر آباد کی طرف آ گئے-  چند دنوں بعد ھری سنگھ Instrument of Accession پر اپنا دستخط کرتے ہوۓ ہندوستان سے پٹھان حملوں کے خلاف مدد کی درخواست کی-  نہرو نے مہاراجہ ھری سنگھ اور اسکے وزیر اعظم مہاجن کو اپنی مدد کا یقین دلایا اور ساتھ ہی ھری سنگھ کو شیخ عبدللہ کو کشمیر کا چیف منسٹر  بنانے پر اسکو راضی کیا-
بین الاقوامی مخالفت کا سامنا کرنے کے لئے نہرو نے برطانیہ کے وزیر اعظم ایٹلی (Attlee) کو بذریعہ ٹیلیگرام  یہ یقین دلایا  کہ "اس ہنگامی حالت میں کشمیر کی مدد کسی طرح بھی ریاست  کشمیر کو ہندوستان سے الحاق پر مجبور کرنا نہیں ہے-  ہمارا موقف اب بھی یہی ہے کہ ریاست کشمیر کے الحاق کا مسلہ ریاست کے عوام کی خواھش کے مطابق ہونا چاہیے-" [حوالہ-١] 
مہاتما گاندھی اپنی دھلی کی پراتھنا میٹنگوں میں برابر یہی کہتے رہے کہ "کشمیری عوام کی راۓ لی جائے کہ پاکستان اور ہندوستان میں سے کس کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں- وہ جیسا چاہتے ہیں ویسا ہی انھیں کرنے دیا جائے-  اس میں حکمران کی نہیں عوام کی خواھش اہم ہے-" [حوالہ-٢] 
جواہر لعل نہرو اسبات پر راضی تھے کہ ریاست میں عوامی را ۓ ضرور ہونی چاہیے-  لیکن پہلے باغی طاقتوں کو نکا ل باھر کر کے امن و امان کی حالت پیدا کی جائے-
ھر شام پراتھنا کی میٹنگ میں لوگ مہاتما گاندھی سے سوال کرتے کہ مسلہ کشمیر پر انکا کیا موقف ہے؟  اور مہاتما گاندھی یہی کہتے کہ اگر کشمیری عوام پاکستان کے حق میں ہیں تو انھیں دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی ہے-  انھیں انکی استصواب راۓ میں بلکل آزاد چھوڑ دیا جائے-  اگر کشمیر کے عوام مسلمان اکثریت ہونے کے باوجود ہندوستان میں شامل ہونا چاہیں تو انھیں کوئی طاقت  نہیں روک سکتی ہے-  اگر ہندوستان کے لوگ کشمیر جا کر کشمیریوں کو ہندوستان میں شامل ہونے پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہیں تو انھیں ایسا کرنے سے باز آنا چاہیے-  مجھے اپنے موقف میں ذرا بھی شک و شبہ نہیں ہے-"  [حوالہ٣ ]  
نہرو نے کشمیری پنڈت جنرل ھیرا لعل اٹل  کو سرینگر بھیجا تا کہ وہ وہاں ایک خفیہ مشن پر کام کرے-  خفیہ مشن میں ایک کا م یہ شامل تھا کہ دریا ۓ جھیلم پر جتنے پل تھے انکو بم لگا کر اڑ ا دیا جائے-  "یہ ایک رسکی کا م ہے، لیکن ہے ضروری-" نہرو نے جنرل ہیرا لعل اٹل  سے کہا-[حوالہ- ٤]
تقسیم ہند کے بعد کشمیر میں جو صورت پیدا ہوئی تھی نہرو نے سا رے اھم کاموں کو نظر انداز کر کے صرف کشمیر کی جنگ پر اپنی توجہ مرکوز رکھا-  وہ جنرل اٹل  کو سمجھاتے  رہے  کہ کشمیر پورے ہندوستان کے لئے کتنا اہم ہے-  کشمیر پرابلم کا حل در اصل پورے ہندوستان کے پرابلم کا حل ہے-  کشمیر میں اگر یہ حقیقت ثابت ھوجا تی ہے  کہ کشمیر کی آبادی میں بسنے والے ہندو، مسلم  اور سکھ عیسا ئی  ساری آبادی کشمیر کی حفاظت پر کمر بستہ ہے تو یہی اصول پورے ہندوستان کی آبادی پر بھی لیا جا سکتا ہے-"  [حوالہ-٥]
برطانوی وزیر اعظم ایٹلی Attlee کو جب کشمیر میں خانہ جنگی کا پتہ چلا تو اس نے نہرو سے صورت حال کی تفصیل مانگی-  نہرو نے اسے بتایا کہ " تقریباً دو ہزار پیشہ ور جنگجو پوری جنگی سامان سے لیس ہو کر ملٹری ٹرک پر کشمیر میں داخل ہوۓ-"  نہرو نے Attlee کو ٢٨ اکتوبر کو بذریعہ تار بتاتے ہوۓ کہا- "مہاراجہ نے ہم سے فوری مدد کی درخواست کی اور ہندوستان کے ساتھ کشمیر کے الحاق کا عندیہ دیا-  ہم نے پہلے کشمیر میں ہندی فوج نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا-  لیکن وقت کے ساتھ جب حالا ت  خراب ہوتے گئے تو ہم نے کشمیر میں ہندوستانی فوج بھیجنے کا فیصلہ کیا قبل اسکے کہ پورا کشمیر تباہ ہو جائے-  آج صبح ایک بٹالین بذریہ ہوائی جہاز سرینگر  بھیجا گیا-  ہماری پالیسی جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ھوں برابر یہ رہی ہے کہ غیر طے شدہ ریاست کا فیصلہ گفت و شنید  سے  ہونا چاہیے پھر وہاں کے عوام کی مرضی سے ہونا چاہیے-  ہماری یہ فوجی مداخلت فطرتاً اور عملان محض مدافیعا نہ ہے-  (حوالہ – ٦)
اسی دن نہرو نے پاکستانی وزیر اعظم لیاقت علی خان کو بھی بتایا-  لیاقت علی خان Attlee سے بھی زیادہ فکر مند تھے-  جس سرعت اور تعداد کے ساتھ ہندی فوج کی ایئر لفٹنگ ہو رہی تھی وہ با عث  تشویش تھی- نہرو نے لیاقت علی خان کو بتایا  کہ ہندوستان کی  حکومت کو  حالت کی نزاکت سے مجبور ہو کر، اور ریاست کشمیر میں دن بدن بگڑتی حالت سے مجبور ہو کر  ایسا قدم اٹھانا پڑا -  باغیوں کو نکا ل باھر کرنے کے بعد ہندوستان کی کشمیر میں مداخلت کی کوئی  خواھش نہیں ہے- (حوالہ – ٧)
اگلی دہا ئی  میں جب کبھی یونائیٹڈ نیشن سیکورٹی کونسل براۓ انڈیا – پاکستان (UNCIP)نے اپنا نمائندہ مشن  نہرو کے پاس بھیجا  تا کہ کشمیر میں سیکورٹی کونسل کے ماتحت الیکشن براۓ  استصواب را ۓ منعقد کرنے کے لئے نہرو کو راضی کیا جائے نہرو نے برابر اپنی رضا مندی دینے سے انکار کیا-  بلآخر  نہرو  کچھ عرصہ بعد UN کی نگرانی میں کشمیر میں استصواب راۓ کے لئے الیکشن کرانے کے اپنے سابقہ موقف سے بلکل مکر گئے-  اور اس سے ہٹ  کر  یہ موقف اپنایا  کہ کشمیر میں ہندوستان کا  ھر الیکشن UN کے استصواب راۓ کے الیکشن کے مساوی ہے-  اور اسی دوران اپنے دوست شیخ عبدللہ کو گرفتار کر لیا-  شیخ عبدللہ جو نہرو اور پٹیل کے ایما ء  پر کشمیر کے وزیر اعظم مقرر ہوۓ تھے انہوں نے ہندوستانی افواج کی کشمیر میں دنوں دن بڑھتی تعداد کے مخالف ہو رہے تھے اور استصواب راۓ کے لئے آزادانہ اور شفّاف الیکشن کے پر زور حامی ہو رہے تھے-
اکتوبر کے آخر میں قائد اعظم پاکستانی فوج کا دو بریگیڈ کشمیر میں ہندوستانی افواج کی سر کوبی کے لئے بھیجنا چاہتے تھے- لیکن فیلڈ مارشل Auchinleck  نے قائد اعظم کو روک دیا-  فیلڈ مارشل Auchinleck فور‌‌‌‍‍ن بذریہ ہوائی  جہاز لاہور پہنچے اور پاکستان کے گورنر جنرل قائد اعظم کو اپنا حکم نامہ واپس لینے کو کہا-  اس نے کہا اگر قائد اعظم اپنا حکم نامہ واپس نہیں لیتے تو پاکستانی افواج میں مقرر  سا رے برٹش عملہ اپنی فوجی ڈیوٹی سے دست بردار ہو جاینگے-  پاکستان کے برٹش کمانڈر ان چیف، C-n-C General Douglas Gracy  کے ایک حکم نامہ پر پاکستان کے سا رے برٹش عملہ دست بردار ہو جاینگے- اور پوری پاکستانی افواج بغیر کسی کمانڈر کے ہوگی-  General Douglas Gracy ان دنوں ساؤتھ ایشیا کے برٹش افواج کے سپریم کمانڈر   Field Marshal Auchinleck کے ماتحت کا م کر رہے تھے- بالاخر قائد اعظم کو کشمیر میں پاکستانی افواج بھیجنے کا حکم نامہ واپس لینا پڑا اور کشمیر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہندوستان کی جھولی میں ڈال دینا پڑا-  اسوقت  قائد اعظم کو لارڈ مونٹ بیٹن کی مشترکہ گورنر جنرل کی پیش کش کو ٹھکرانے کا کتنا بڑا خمیازہ بھگتنا پڑا احساس ہوا- (حوالہ-٨)
(باقی آیندہ)  - فیس بک تاریخ ٢٦ جولائی ٢٠١٧

References:

 [1]      Letter from Nehru to Attlee, 25 Oct. 1947, Selected Work of Jaiprakash             Narayan,  p.275.
[2]       Gandhi’s Prayer meeting, 29 July, 1947, Collected  Works of Mahatma             Gandhi, 88, p.461.
[3]       Gandhi’s prayer meeting, 26 Oct. 1947, Collected Works of Mahatma             Gandhi, 89, pp.413-414.
[4]       Letter from Nehru to Gen. Atal, 27 Oct. 1947, Selected Work of             Jaiprakash Narayan vol.2, pp.283-284.
[5]       Ibid. pp.285-286.
[6]       Letter from Nehru to Attlee, 28 Oct. 1947,  Selected Work of Jaiprakash             Narayan, vol.2, pp.286-88.
[7]       Stanley Wolpert,  Jinnah of Pakistan, p. 352
[8]      Ibid. p. 353.

کشمیر - ایک تاریخی ناسور (قسط – ١)


تخلیص و تحریر:  اسرار حسن
تاریخ:  ١١ جولائی ٢٠١٧

تقسیم  ھند  کی  ایک  ناپسندیدہ  اور  نامکمّل  کہانی  کشمیر  کے  گرد  گھومتی  ہے-   برٹش  پارلیمان  نے  جب ٣ جون ١٩٤٧  کو   ہندوستان  کو  آزاد  کرنے  کا  فیصلہ  کیا  تو  دو  بڑے  اہم  مسایل  درپیش  آ ۓ-    ایک  پاکستان  کا  قیام  دوسرا  ٥٦٥  آزاد  ریاستوں  کا   ہندوستان  اور  پاکستان  میں  سے  کسی  ایک  کے  ساتھ  الحاق  کا  مسلہ  تھا-  ہندوستان  کے  شمال  مغرب  کی  مسلم  اکثریتی  صوبے  جن  میں  سندھ،  پنجاب،  بلوچستان  اور  سرحد  کے  علاقے  شامل  تھے  انہوں  نے  پاکستان  کے  ساتھ  الحاق  کا  فیصلہ   کیا-  اسی طرح  مشرق  میں  مشرقی  مسلم  بنگال  نے  پاکستان  کے  ساتھ  الحاق  کیا-  لیکن  دوسرا  بڑا  مرحلہ  ٥٦٥  آزاد  ریاستوں  اور  انکے  ساتھ  ساتھ  ہزاروں  زمینداروں  اور  جاگیرداروں  کا  الحاق  تھا-  یہ  آزاد  ریاستیں  پورے  ہندوستان  میں  جا  بجا  بکھرے  ہوۓ  تھے-   قانون  الحاق  کے  مطابق  ان  کو  کہا  گیا  کہ  ھند  و  پاک  میں  سے  کسی  ایک  کے  ساتھ   ١٥  اگست  ١٩٤٧  سے  پہلے  الحاق  کر لیں-  ہندوستان  کی  آزادی  کے  بعد  انکی  آزاد  حیثیت  ختم  ہو جاتی  ہے-      ا صولاً   مسلم  اکثریتی  ریاستوں  کو  پاکستان  کے  ساتھ  اور  ہندو  اکثریتی  ریاستوں  کو  ہندوستان  کے  ساتھ  الحاق  کرنا  تھا-  لیکن  ایسا  نہ  ہو  سکا-  ١٦ اگست ١٩٤٧  کو  تقسیم  ہند کے بارے میں جب ریڈ کلف ایوارڈ  کا  اعلان  ہوا  تو  ضلع  گورداس پور میں  واضح  مسلمان  اکثریت  ہونے  کے  باوجود  اسے بھارت  میں  شامل  کر دیا گیا-  بھارت  سے  کشمیر تک  کی  راہداری  صرف  گورداس پور  سے  ممکن  تھی-  اسی طرح  حیدرآباد  اور  جونا گڑھ  کی  آبادی میں  مسلمان  اکثریت  ہونے کے  باوجود  ہندوستان میں  شامل  کر  لیا  گیا-
کشمیر  کے  الحاق  کا  مسلہ  اس  لئے  پیدا  ہوا  کہ  کشمیر  کا  ہندو  حکمران،  مہاراجہ  ھری  سنگھ  آزاد  رہنا  چاہتا  تھا-  وہ  ھند و  پاک  میں  سے  کسی  کے  ساتھ  الحاق  نہیں  چاہتا  تھا-  لیکن اسکی  خواھش  پوری  نہ  ہو  سکی-  اکتوبر  ١٩٤٧  میں  پاکستان  سے  کشمیر  پر پٹھان   قبایلی  حملہ  نے  مہاراجہ  ھری  سنگھ  کو  ہندوستان  کے  ساتھ  الحاق  کرنے  پر  مجبور  کر دیا-  اس  صورت  حال  نے  معاملہ  کو  زیادہ  الجھا  دیا- 
٣ جون ١٩٤٧  کو جب تقسیم ھند کا  فارمولا  منظور ہوا  تو ہندوستان  کی  ٥٦٥  ریاستوں  کو  آزاد  چھوڑ  دیا  گیا  تھا  کہ وہ  اپنی  جغرافیائی  اور  معاشیاتی  حقایق  کے  پیش  نظر  اپنی اپنی  آبادی  کی  خوا  ہشات  کے  مطابق  بھارت  یا  پاکستان  سے  الحاق  کر لیں-  ریاست  جموں و کشمیر  کی  دو تیہآیی،  یعنی پچہتر  فیصد  آبادی  مسلمانوں  پر  مشتمل  تھی-  اسکی  سرحدوں  کے  چھ سو میل  مغربی  پاکستان  کے  ساتھ  مشترک  تھے-  ریاست  کی  واحد  ریلوے لائن  سیالکوٹ  سے  گزرتی تھی اور  بیرونی  دنیا  کے  ساتھ ڈاک و تار  کا  نظام بھی مغربی پاکستان  کے ذریع  قایم  تھا-  ریاست کی  دونوں  پختہ  سڑکیں  راولپنڈی  اور  سیالکوٹ  سے  گزرتی  تھیں  اور  کشمیر  کی  تمام  درآ مدات  اور  برآمدات  کا  راستہ  بھی  پاکستان  سے  وابستہ  تھا-  کشمیر  عملان پاکستان  کی  ایک  ذیلی  ریاست  تھی-  ان سب  حقائق  کے  پیش  نظر  جموں و  کشمیر  کا  پاکستان  کے  ساتھ  الحاق  لازمی  طور  پر  ایک  قدرتی  اور  منطقی  فیصلہ  تھا-   لیکن  مہاراجہ  ھری  سنگھ  کے  عزایم  کچھ  اور  تھے-
   مہاراجہ  ھری  سنگھ  آزاد  رہنا  چاہتا  تھا-  وہ  کشمیر  کو  ایشیا  کا  سویزرلنڈ  بنانا  چاہتا تھا-   اس  نے  ہندوستان  اور  پاکستان  دونوں  کے  ساتھ  Standstill  اگریمنٹ  کر  رکھا  تھا،  تاکہ  ١٥ اگست ١٩٤٧  کے  بعد  کشمیر  کے  کاروبار  ریاست  میں  کوئ   روکاوٹ  پیدا  نہ  ہو-  لیکن  اکتوبر ١٩٤٧  میں  حالا ت   نے  پلٹا  کھایا -  کشمیر  کو  آزاد  رکھنا  ممکن  نہ  رہا  اور  ہندوستان یا  پاکستان  میں  سے الحاق  کے لئے  کسی  ایک  کا  انتخاب  کرنا  اسکے  لئے  ضروری  ہو گیا-  پاکستان  کے  ساتھ  Standstill  اگریمنٹ  طے  ہوتے  ہی  مہاراجہ نے  جموں  اور  پونچھ  کی  آبادی  کو  مسلمانوں  سے  پاک  کرنے  کا  تہیہ کر لیا-  اس  مہم  کی  کمان  اپنے  ہاتھوں  میں  لے کر  ڈوگرا  فوج،  پولیس،  اور  راشٹریہ سیوم  سوک  سنگھ  (RSS)  کے  دستوں  کو  بھیڑیوں  کی  طرح  جموں  اور  پونچھ  کی  مسلم  آبادی  پر  چھوڑ  دیا-  قتل  و  غارت،  لوٹ  مار،  خواتین  کی  بے حرمتی  اور  جوان  لڑکیوں  کے  اغوا  کی  جو  قیامت  برپا  ہوئی،  اسے  الفاظ  میں  بیان  کرنا  آسان  نہیں-  اس  شورش  میں  بےشمار  لڑکیاں  اغوا  ہوئیں  ان میں  چودھری  غلام  عبّاس  کی  ایک  بیٹی  بھی  شامل  تھی-  جموں  کے  مسلمان  آبادی  کا  صفایا  کرنے  کے  بعد  مہاراجہ  نے  پونچھ  کے  مسلمانوں  کی  طرف  اپنا  رخ  کیا- 
پونچھ  کی  آبادی  میں  ٩٥ فیصد  مسلمان تھے-  پونچھ  کی  آبادی  دررانی اور  افغانی  نسل  کی  راجپوت  آبادی  پر  مشتمل  تھی-  پاکستان  کے    ملحقہ  اضلاع  سیالکوٹ،  گجرات،  جہلم،  اور  راولپنڈی  میں  انکی  بیشمار  رشتہ داریاں  اور  عزیز داریاں  تھیں-  ڈوگرہ  حکومت  کے  تیور  دیکھ  کر  مقامی  مسلمانوں  نے  اپنی  خواتین اور بچوں کو  پاکستان  میں  اپنے  رشتہ داروں  اور  دوستوں  کے  ہان  بھیج  دیا  اور  خود  ڈوگرہ  حکومت  کے  خلاف  جہاد  کے  لئے  تیار  ہو گئے-  پونچھ  کا  بیشتر  علاقہ  ان  قبایل  نے  آزاد  کرا لیا-  اکتوبر  ١٩٤٧  کے  وسط  میں  انہوں  نے  ایک  مرکزی  جنگی  کونسل  قایم  کر لی-  اور  ٢٤ اکتوبر  ١٩٤٧  کو  آزاد  جموں  و  کشمیر   کا  قیام  عمل  میں  آیا-  جس کے  پہلے  صدر  سردار  محمّد  ابراہیم  خان  تھے-  دس ہزار  میل  سے  زیادہ  رقبہ  آزاد  کرا لئے-  ان  میں  بھمبر،  میرپور،  کوٹلی،  مندھر،  راجوری،  اور  نو شہرہ  کو  آزادی  نصیب ہویی-
 کشمیر  کی  آبادی  کی  اکثریت  مسلمانوں  پر  مشتمل  تھی-  اصولا  مہاراجہ  کو  اپنا  الحاق  پاکستان  کے  ساتھ  کرنا  تھا-  لیکن  کشمیر  کا  الحاق  اس  نے  ہندوستان  کے  ساتھ  کیا-  واۓسرا ۓ  ھند   ماؤ نٹ بیٹن  نے  اس  الحاق  کو  اس  شرط  پر  منظور  کیا  کہ کشمیر  میں  امن و أمان  بحال  ہوتے  ہی  وہاں  استصواب  راے  کے  ذریع  الحاق  کا  فیصلہ  ہوگا-  اکتوبر  ١٩٤٧  میں  ماؤ نٹ بیٹن  نے  مہاراجہ  ھری  سنگھ  کو  جو  خط  لکھا  تھا  اس میں استصواب  راے کی   شرط کو   الحاق  سے  منسوب  کر دیا  تھا-
اکتوبر  ١٩٤٧  میں  کشمیر  کی  پہلی  جنگ  چھڑ  گی-  ضلع  پونچھ  کے  مسلمان  مزدور  کسان  اپنے  ضلع  کے  ہندو راجپوت  زمینداروں  کی  بڑھتی  ہوئی  ظلم و  ستم  کے  خلاف  اٹھ  کھڑے  ہوۓ-   ١٠ - اکتوبر  کے  لندن  ٹائمز  نے  رپورٹ کیا  کہ  منظّم  طریقے  سے  مسلمان  کسانوں  کو  مہاراجہ  کشمیر  کی  ایما ء  پر  صفایا  کیا  جا  رہا  ہے-   کشمیر  کے  مسلمان  مزدور کسان  نے  کثیر  تعداد  میں  پاکستان  ہجرت  کرنا  شروع  کر دیا-  پونچھ  کے    ظلم و  ستم  کی  کہانی  پاکستان  میں  آگ  کی طرح  پھیل  گئ -   اکتوبر  کا  مہینہ  ختم  ہونے  سے  پہلے  پاکستان  فرنٹیئر  کور  کے  قبایلی  پٹھان  انکی  مدد  کے  لئے  آگے  بڑھے اور  برٹش  آرمی  کے  ٹرکوں  میں  بھر بھر  کر  کشمیر  کی طرف  روانہ  ہو گئے-  ٢٢ اکتوبر  کو  قبایلی  پٹھانوں  نے  کشمیر  پر  حملہ  کر  کے  مظفر آباد  کو  اپنے  قبضہ  میں  لے  لیا  اور  اسے  پاکستانی  کشمیر  کا  دارلخلافہ  بنا  ڈالا-  ٢٤ اکتوبر کو  قبایلی جتھہ  نے  مھورا  پر قبضہ  کر کے وہ  پاور ہاؤس  اڑا دیا  جس  سے  سرینگر  شہر  کو  بجلی  فراہم  ہوتی  تھی-  رات ٩  بجے  جب  اچانک  سارا  شہر  گھپ  اندھیرے  میں  ڈوب  گیا،  اس وقت  مہاراجہ  ھری سنگھ  اپنے  راج محل  میں  دسہرہ  کا  دربار  لگاۓ  بیٹھا  تھا-
مھورا  سے  قبایلی  پٹھانوں  کا  لشکر  بارہ مولا  پہنچا  تو  دیکھا  کہ  ڈوگرا  فوج  اور  RSS کے  درندے  اس  شہر  کو  اپنے  ہاتھوں  تا خت  و  تا راج  کر  کے  پہلے  ہی  وہاں  سے  بھاگ  کھڑے  ہوۓ  تھے-  بارہ مولا  میں  قتل  و  غارت  اور  لوٹ  مار  کی  داستان  کے  دو  متضاد  بیانات  ہیں-  ایک  یہ کہ ھری سنگھ  کی  فوج اور  آر ایس ایس  کے  لوگوں  نے  جب  پٹھان  قبایل  کی  آمد  کی  خبر  سنی  تو  پورے  شہر  بارہ مولا  کو  اپنے   لوٹ  مار  اور  قتل  و  غارت  سے  تباہ  کر  کے  بھاگ  کھڑے  ہوۓ-   دوسرا  بیان  یہ  ہے  کہ قبایلی  پٹھانوں  کا  وحشی  جتھہ  ٢٤  اکتوبر  کو  بارہ مولا  داخل  ہوا اور  یہاں  دو  دنوں  تک  لوٹ،  مار،  قتل  و  غارت اور  ایک  عیسائی چرچ  'میری'  کے  راہباؤں کے  ساتھ  داد عیش  دیتا  رہا،  جبکہ  یہاں  سے  سرینگر  کا  ائیرپورٹ  فقط  ٣٠ میل  کے  فاصلہ  پر  تھا-  جسکو  چند  گھنٹوں  کی  مسافت  سے  طے  کیا  جا  سکتا  تھا- 
سرینگر  میں  مہاراجہ ھری سنگھ  کو  جب  فرنٹیئر کور  کا  قبایلی  جتھہ بارمولہ  پہنچجے  کی  خبر  ملی اور  جب  مھورا  کا  پاور  سٹیشن پر  پٹھانوں کا  قبضہ  ہونے  کے  بعد  پورا  سرینگر  اندھیرے  میں  ڈوب  گیا   تو  مہاراجہ  ھری سنگھ  اپنی  فیملی  ممبران  اور  ہیرے جواہرات  سے  بھری  قیمتی  اثاثوں  کے  ساتھ  وہ  سرینگر  سے  بھا گ  کر  جموں کے  جنوب  میں  آگیا-  (باقی آئنندہ)   فیس بک – جولائی ١١، ٢٠١٧ 

Tuesday, March 7, 2017

حیات بعد الممات : ایک عقیدہ، ایک تلاش.

تحریر:  اسرار حسن-
فلوریڈا،  ٣٠  جنوری  ٢٠١٧-

جی ہاں!  ہماری  اس  گفتگو  کا  مرکز  دنیاۓ  آخرت  کی  ایک  تلاش اور  حیات  بعد الممات کے  عقاید  اور  اسکے  خیالات پر  مبنی  تھی-   تقریباً  دنیا  کے  تمام  مذاہب  اسبات  پر  متّفق  ہیں  کہ  جسد  خاکی  کی  موت  کے  بعد  بھی  ایک  زندگی،   ایک  حیات  ہے-   یہ  تصوّر  انکے  ثقافتی  پسمنظر  کے  مطابق  مختلف  مذاہب  میں  مختلف  پیراے  سے  موجود   ہے – مثلا  جزیرہ نما  عرب  کی  ثقافت میں  اس  تصوّر  کا  ذکر  مختلف  ہوگا  بنسبت  افریقہ  اور  آسٹریلیا  اور  ہندوستان  کی  ثقافت  سے-   لیکن  سبھی  ثقافتی  مذاہب  حیات  بعد الممات  کے  تصوّر  پر  متفق  ہیں-  اور  اسی  سے  منسلک  تصوّرات  جنت  اور  جہنم'  روز حشر،  روح و  جسم  کا  دوبارہ  وجود میں  آنا،  سزا  اور  جزا  کا  تصوّر  انکے  ثقافتی  پس منظر  کے  مطابق ،  مختلف  مذاہب  میں  مختلف  طریقے  سے  مروج  ہے- 
(٢ )       میں  گاھے بگاہے  اپنے  دانشور  دوست، لکش میشور  دیال  (Lakshmeshwar) سے  ملتا  رہتا  ھوں-  اور  اسی  قسم  کی  مذہبی، سیاسی، اور  معاشرتی  topics  پر  ہملوگ  طبع آزمایی کرتے  رہتے  ہیں  جو   socialmedia پر  کافی  پسند  کئے  جاتے  ہیں-  مسٹر  دیال اپنی عمر  کی  ٩٣  سال  سے گزر  رہے  ہیں-  وہ  مجھ  سے  صرف  ١٠ سال بڑے ہیں-  چلنے پھرنے  سے  معذور  ہیں،  دن کو  وهیل چیر  پر اور رات اپنے بیڈ  پر ہوتے ہیں،  دونوں  آنکھوں  کی  بینآیی اور  سماعت  تقریباً  جاتی  رہی ہیں؛  لیکن ان  تمام  محرومیوں  کے باوجود  انکا  ذہن آج  بھی  شیلے،  کیٹس،  شکسپیر  اور غالب،  ذوق،  میر تقی میر  کی  شا عری اور  نظم  کی  لا ینوں سے  بھری  پڑی  ہیں -  وہ پرانے  ٹائمز  کے   ICS ہیں  جو بہار گورنمنٹ میں  چیف  سیکرٹری  کی  حثیت  سے ریٹائر ہوۓ  اور پٹنہ  میں اپنی  وائف  کے  انتقال  کے  بعد  امریکا  میں  اپنے  بڑے  بیٹے  سرت دیال  کے  پاس آ گئے-  فلوریڈا  میں  سرت اور میری  رہایش  میں کویی  چھے میل  کا  فاصلہ ہے-  ایک  ہم وطن،  ہم زبان،  ہم کلچر  اور  ہم مذاق  کا  امریکا  میں  مل جانا  ایک  معجزہ  سے  کم  نہیں-   اس  قربت  کو  غنیمت  جانتے  ہوۓ  میں  اس  سے  زیادہ  سے  زیادہ  مستفید  ہونے  کی  کوشش  کرتا  رہتا ھوں-
  (٣)        ایک  گھنٹے  کی  طویل  اور  تشنہ  بات چیت  کے  بعد  ہم  دونوں  ایک  نقطہ  پر  متفق  ہو سکے-  جس  چیز  نے  انسانی  برادری  کو  جنگ  و  جدل  سے  دور  رہ  کر  امن  و آشتی  کی  طرف  راغب  کیا  اسی  ضرورت نے انسان  کو  مذہبی  عقاید  کیطرف  راغب  کیا-  انسانی  معاشرہ  کے  ابتدایی  دور  میں  قدرتی  آفات  سے  بچاؤ  کے  لئے  غاروں  کی  زندگی  میں  خونخوار  جانوروں،  آگ  ابلتے  پہاڑوں ،  آبی  جانوروں،  اور  سمندری  لہروں  سے  بچاؤ   کا  واحد  پناہ  گاہ ان  بھیانک  دیوتاؤں  کی  عبادات  میں  اور  انکی  قربان گاہ  پر  انسانوں  اور  جانوروں  کی  قربانی  میں  تھا-
     تاریخ  عالم  کے  مختلف  ادوار  میں  انسانی  معاشرہ  اپنی  معاشرتی  زندگی  کو  بہتر  سے  بہتر  بنانے  کے  لئے  اپنے  طریقہ  حکمرانی  کو  کبھی  خاندانی  اور  قبایلی،  کبھی  شخصی  بادشاہت ،  کبھی  مذہبی پیشوایی میں،  کبھی  سوشلزم  میں،  کبھی  کمیونزم  میں،  اور  کبھی  جمہور  کی  جمہوریت  میں  تجربہ  کرتی  رہی  ہے-  انسانی  معاشرہ  کی  اس  سیاسی  تجربات  نے  نسل انسانی  کو  یہ  شعور  دیا  کہ  حکمرانی  کا  حق  صرف  محکوم  جمہور کو ہے-  اقتدار عأ لی صرف  جمہور  کے  نمایندوں  پر  مشتمل  پارلیمان  کے  ہاتھوں  میں  ہوتا ہے- 
(٤)       انسانی  تہذیب  و  تمدّن  کے  عروج  کے  ساتھ  ساتھ  انسان  کی  اگلی  ضرورت  روحانی  تھی-  شروع شروع  مذہب  اور  اخلاقیات  کا  ایک  دوسرے  سے  کویی  تعلق  نہ  تھا-   زمینوں  پہاڑوں  اور  دریاؤں  میں  پانے  جانے  والے  قدرتی  اور  آفاقی  آفا ت   نے  پہلے  پہل  دیوتاؤں  کا  روپ  دھارا -  دیوتاؤں  اور  دیومالاؤں  کی  قربان گاہ  پر  زندہ  انسانوں  اور   جانوروں  کی  قربانی  کی  رسم  بنتی  گیئ-   انسانی  جانوں اور  جانوروں  کی  قربانی  کی  رسم  نے مذہبی  پیشواؤں  اور  کاہنوں  کی  ایک  کلاس  کو   جنم دیا -   مذہبی  پیشواؤں  اور  کاہنوں  کے  وجود  میں  آنے  کے  ساتھ  ساتھ  مذہبی  رسومات  اور  عملی  اخلاقیات  اور  ان  سے  مرتب  قوانین  کا  وجود  میں  آنا شروع  ہوا-  اسطرح  مذہب  اور  دین  معاشرہ  میں  ایک  قوت  بنکر ابھرا-   حتیٰ کہ  چرچ  اور  کلیسہ  تاریخ  کے  مختلف  ادوار  میں  حکومتوں  اور  ریاستوں  کے  مد مقابل  بنکر  سامنے  آیے- 
(٥)       کٹر   لا مذہب  بھی  انسانی  معاشرہ  کے  مختلف  ادوار  میں  مذہب  کا  عمل  دخل  دیکھ کر  اسکے ہمہ گیر   اثرات  کے  منکر  نہیں  ہیں-  رنجیدہ  لوگ،  ظلم  کے  ستا ے  لوگ  اور  اپنوں  پیاروں  سے  محروم  لوگوں کے  لئے  مذہب کی  جانب  سے  تسکین آمیز  روحانی  مزدہ  کا  پیغام  مردہ  میں  جان  ڈالنے  کے  مصداق رہا ہے-  یہ  مذہب  ہی  ہے  جس  نے  استاد   اور  والدین  کو  بچوں  کی  تربیت  کے لئے   کارآمد  ذریع  بنایا-  اس نے  غریب  اور  مفلوک  حال  کو  جینے  کا  گر  سکھایا-  اور  دنیا  میں  انکی  لا حاصل  زندگی  کو  آخرت کی  بیش بہا  زندگی  کو  حاصل  کرنے  کا  وسیلہ  بنایا-  بقول  نپو لین  یہ  مذہب  ہی  ہے  جس  نے  غریب  کو  امیروں  کے  قتل  عام سے  روکے  رکھا-   انسانی  معاشرہ  میں  امیر و  غریب  کی  تقسیم  ایک  فطری  عمل  ہے-  کسی  میں  صلاحیت  زیادہ  ہوتی  ہے  تو  کسی  میں  کم-  دنیا  کی  عملی  زندگی  میں اسکا  خمیازہ  بھگتنا  پڑتا  ہے-  لیکن  مذہب ہی  ہے  جو  انکے  نیک  اعمال  کو  رایگان  نہیں  جانے  دیتی-  دنیاوی  خسارے  کا  صلہ  انھیں  آخرت  میں مل ہی   جاتا  ہے-  جس  معاشرہ  میں  حیات بعد الممات  کا  نظریہ  مفقود  ہوتا  ہے،  وہاں  طبقاتی  جنگ  اپنا  سر  اٹھاتی ہے-  جہاں  مذہب  کا  اثر و رسوخ  مفقود ہوگا  وہاں  کمیونزم  اور  سوشلزم  سر اٹھاتی  ہے-  وہاں  نظم  و  ضبط  کا  فقدان  اور  اخلاقیات  کا  جنازہ  نکلتا  ہے-
(٦)       قدرتی  آفات  کے  ان دیکھے  خوف  سے  بچنے  کے  لئے  جب  مذہبی  پیشواؤں  اور  کاہنوں  نے اپنے  اپنے  مذہبی  رسومات  اور عبادات  کا  رسم  و  رواج  جاری  کیا  جب  ہی  سے  مذہبی  رسومات  اور عبادات  حکومت  وقت  اور  ریاستوں  کے  مد مقابل  ایک  قوت اور  طاقت  بنکر  ابھرے-   مذہبی  پیشواووں  نے  عبادات  گزاروں  کو  بتایا   کہ مذہبی  اخلاقیات  اور  رسومات  کے  اصول  انکے  اپنے  مرتب  کردہ  نہیں  ہیں-   بلکہ  خداؤں  کے  جانب  سے  نافذ  کردہ  ہیں-  سوس دیوتا  اہل مصر  کو  آسمانی  قانون  دیتے  ہوۓ  دکھایا  گیا-   شمماس  دیوتا  کو  حمورابی  کے  حوالے  آفاقی  قوانین اھل  بابل  کے  لئے  دیتے  ہوۓ  دکھایا  گیا-  اھل  یہود  کا  خدا  Yahveh  کو  حضرت  موسیٰ کو  وادی سینا میں   TenCommandments دیتے  ہوۓ  دکھایا  گیا-  حضرت  عیساء کو  انجیل  اور  محمّد  عربی  کو  قران  دیتے  ہوۓ  دکھایا  گیا-  تقریباً  تمام  مذاہب  کے  پیروکار،  یہود،  عیسائی،  مسلم  اور  بت پرست  کو  یقین  تھا  کہ  دنیا  کا  ھر   حکمران  دیوتاؤں  اور  خداؤں  کا  نائب  ہے  اور  انپر  دیوتاؤں  کی  آشیرباد  ہے-
(٧ )           اب  ہم  اپنے  اصل  موضوع  "حیات  بعد  الممات"  کیطرف  اتے  ہیں-   باور  کیا  جاتا  ہے  کہ  انسانی  تہذیب  و  تمدّن  کے  ابتدا  سے  جیتنے  بھی  سیاسی،  مذہبی،  معاشرتی،  روحانی  اور  غیر  روحانی etiqadat  و  خیالات  نے  جنم  لیا،  یہ  دراصل  انسانی  زہن  اور  تخیلات  کے  ارٹقائی  دور  کے  پیداوار  ہیں-   یہ  Eteqadat و  تصورات  تاریخ  کے  مختلف  ادوار  میں  ارتقایی  سفر  کرتے  رہے-   باور  کیا  جاتا  ہے  کہ  حیات  بعد  الممات  کا  تصوّر  بھی  ان  ہی  میں  سے  ایک  تصوّر  ہے-   اس  تصوّر  کے  بغیر  دنیا  میں  اخلاقی  قوانین  اور  انصاف  کا  تقاضا  پورا  نہیں  ہوتا-   دنیا  میں  غریب  اور  نادار  پر  کئے  گئے  نا انصافی   کا  صلہ  صرف  حیات  بعد الممات  میں  ہی  ممکن  ہے-  اگر  ہم  اس  تصوّر  کو  دنیا  کے  سارے  مذاہب  سے  نکال  باھر   کریں،  تو  انسانی  تہذیب  و  تمدن   کی  عمارت  بیٹھ  جاےگی-  غریب  نحیف  امیر  و  جابر  سے  اپنے  حوقوق  کے  لئے  برابر  نبرد  آزمایی  کرتا  دکھایی  دیگا-   حیات  بعد الممات  ہی  میں  ظلم  و  نا انصافی  کا  ازالہ  ممکن  ہے-   اسطرح  کا  روحانی  خوراک  انسانی  معاشرہ  کی  سلامتی،  سکون  اور  ترقی  کے  لئے  اتنا  ہی  ضروری  ہے  جتنا  کہ  انسانی  معاملات اور  انصاف  کے  لئے ایک  کارآمد  نظام  حکومت کی ضرورت  ہے-
(٨)       مذہب  کا  یہ  تصوّر  جو  اوپر  بیان  کیا  گیا  یہ  انسانی  معاشرہ  میں  امن  و  امان،  سلامتی  اور  خوشحالی  کے  لئے  اتنا  ہی  ضروری  ہے  جتنا  کہ  سیاسی،  معاشی،  اور  معاشرتی  نظام  کے  حصول  کے  لئے ایک  کامیاب  سیاسی  طرز  حکومت  کا  ہونا  ضروری  ہے-  صدیوں  کے  تجربات  کے  بعد  شخشی  حکومت،  مذہبی پیشوایی  حکومت،   مطلق العنان  حکومت،  کمیونزم،  اور  سوشلزم  کے  ناکام  تجربات  کے  بعد  جمہوری  طرز  حکومت  کو  آج  زیادہ  تر  قوموں  اور  حکومتوں  نے  اپنا  لیا  ہے- 
            حالیہ  صدیوں  میں  مغربی  اقوام  کا   کاروبار  حکومت  سے  مذہب  کو   نکال  باھر  کرنے  کا   تجربہ  جاری  ہے-  انسانی  معاشرہ  کا  میزان  برابر  سیاست  اور  مذہب  کے  امتزاج  پر  قایم  ہے-  مغرب  کا  موجودہ  عمل  اس  میزان  میں  خلال  پیدا  کرنے  کا  مرتکب  ہوگا-  انسانی  سوسائٹی  میں  اس سے  جو  بد نظمی  پیدا  ہو  رہی  ہے  اور  ہوتی  جاےگی،  آھستہ  آھستہ   ہمارے  سامنے  اجاگر  ہو  رہی ہیں -   امریکا  اور  یورپ  میں  مذہب  کو  دیس نکالا  کر  کے  انسانی  نسل  اور  فیملی  کی  تباہی  کا  منظر  ایک  علیحدہ  موضوع  ہے- پھر  کسی  وقت  اسپر  روشنی  ڈالی  جاییگی-   اسوقت  میرا  مطمح  نظر  قاریین  کرام  کو  صرف  یہ  بتانا   ہے  کہ  انسانی  معاشرہ  میں  توازن  کے  لئے  سیاست  اور  مذہب  کا  ہونا  کتنا  ضروری  ہے-   
          مغربی  اقوام  کا  حالیہ  تجربہ  جس  میں   سیاسی  نظم  و  نسق  سے  مذہب  کو  دیس نکالا  کرنے  کا  رحجہان  بڑھتا  جا  رہا  ہے،  یہ  تجربہ   یقینی  طور  پر  قوموں  کی  (سیاسی اور مذہبی)  مادّی   اور  روحانی ضروریات  کے   توازن  کو  مجروح   کردیگا-   اور  بلآخر  یہ  سیاسی  اور  سماجی  تباہی  کا  سبب  بنےگا -   تاریخ عالم  کے  اوراق  ایسے  حالات   و  واقعات  سے خالی  نہیں  ہیں-   فرعون  مصر  کی  سلطنت  ہو  یا  سلطنت  روما،  پرسین  امپائر  ہو  یا  ذار  روس  کا  دبدبہ یا  نازی جرمنی  کی  طاقت ،   یہ سارا  دبدبہ، یہ  ساری  سلطنتیں  اس  لئے  مٹ گین  کہ  انکے  معاشرہ  نے  مذہب  کو  خارج  کرکے  سوسائٹی  کے  توازن کو  بگاڑ  دیا  تھا-  حالیہ  دور  میں  جرمنی،  سوویت یونین  اور  یورپین  یونین  جس  شکست  و  ریخت  کا  شکار  ہیں  یہ  سا رے   اسی  توازن  کے  بگڑنے  کے  سبب  ہیں-    
- O -