RIGHTEOUS-RIGHT

Help one another in righteousness and pity; but do not help one another in sin and rancor (Q.5:2). The only thing necessary for the triumph of evil is for good men to do nothing. (Edmond Burke). Oh! What a tangled web we weave, When first we practice to deceive! (Walter Scott, Marmion VI). If you are not part of the solution …. Then you are part of the problem. War leaves no victors, only victims. … Mankind must remember that peace is not God's gift to his creatures; it is our gift to each other.– Elie Wiesel, Nobel Peace Prize Acceptance Speech, 1986.

Saturday, September 5, 2015

پاکستان کا مستقبل: ایک خاکہ

تحریر:  اسرار حسن
٥ ستمبر ٢٠١٥ء


      آج سال ٢٠١٥ء  میں پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے یہ بالواسطہ پاکستان کی ماضی کا تسلسل ہے، اور امکان یہ ہے کہ پاکستان کا مستقبل بھی پاکستان کی ماضی اور حال سے مختلف نہ ہوگا- اگر حالات و واقعات کا تسلسل اسی طرح جاری رہا-
 
      اگست ١٩٤٧ میں پاکستان کا قیام اور اس سے پہلے کے عشرہ میں پاکستان کی تحریک کا میں چشم دید گواہ ہوں – ١٩٤٧ کے بعد پاکستان جن سیاسی اور معاشی  مد و جزر سے گزررہا تھا، سب میری آنکھوں کے سامنے ہے-  تقسیم ھند کے وقت برٹش انڈیا کے خزانہ سے پاکستان کا حصّہ پچھہتر(٧٥) کروڑ بنتا تھا، جسے ہندوستان نے دینے سے انکار کر دیا -  جب مہاتما گاندھی نے کانگریس پر دباؤ کے لئے مرن برت کیا جب پاکستان کو برٹش انڈیا کے خزانہ سے اسکا حصّہ ملا-  اسیطرح تقسیم ھند کے وقت ملٹری  Ordnance  فیکٹریز اور ملٹری Hardware کا اہک تیہآیی (٣/١) پاکستان کے لئے مختص تھا -  لیکن سترہ کے سترہ  Ordnance فیکٹریز اور ملٹری Hardware بھارت میں واقع تھے-  جب اسوقت کے برطانوی کمانڈر نے پاکستان کا حصّہ پاکستان کے حوالے کرنا چاہا تو بھارت کی حکومت نے اعتراضا ت  کا ایک واویلا  کھڑا کر دیا اور اعلان کیا کہ ملٹری ساز و سامان میں پاکستان کا کویئ حصّہ نہیں ہے -  برٹش سپریم  کمانڈر نے احتیجاجا  ملازمت کو خیر باد کر دیا اور اسطرح  پاکستان فوجی ساز و سامان کا کویی حصہ حاصل نہ کر سکا-  اندنوں پاکستان کے سارے دفاتر، فرنیچر اور اسٹیشنریز کے ساز و سامان سے خالی تھے- پوسٹل اسٹامپ اور ریلوے ٹکٹ وغیرہ  ربر اسٹامپ سے پورے کئے جاتے تھے-  

      ایکطرف تو نوزایدہ پاکستان کا یہ منظرنامہ تھا دوسری جانب اگست ١٩٤٧ سے اکتوبر ١٩٥٨ تک گیارہ سالہ ابتدایی پاکستان کی سیاست میں جو اکھاڑ پچھاڑ کا سیلاب امنڈ رہا تھا یہ نوزایدہ  پاکستان کو بہا لے جاتا اگر ١٩٥٨ کا مارشل لاء اسکے آگے بند نہ باندھتا -١٩٤٧ سے ١٩٥٨ تک گیارہ سال میں سات وزراءے اعظم آۓ  اور گئے-  چند ایک تو صرف چند مہینوں کے مہمان تھے-  پہلا وزیر اعظم،  لیاقت علی خاں تھے جن  کو ١٦ اکتوبر١٩٥١ کو پنڈی  کے بھرے جلسہ عام میں دن دھاڑے گولی مارکر ہلاک کر دیا گیا- سیاسی قتل کا یہ سلسلہ یہیں نہ رکا-  بعد میں مرتضیٰ بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو بھی گولی کا نشانہ بنایا گیا اور ذولفقارعلی بھٹوکو سولی پر لٹکا دیا گیا-  پاکستان کی سیاست میں شروع ہی سے  پراسراریت کی دبیزدھند چھا یئ  ہوئی ہے- آجتک نہ تو لیاقت علی خان کا قا تل نہ ہی محترمہ بینظیر بھتو کا قاتل پکڑا جا سکا ہے-  اکتوبر ١٩٥١ سے اگست ١٩٥٥ تک ایکمعذور اور  اپاہج  ملک غلام محمّد کو قائد اعظم  اور خواجہ ناظم الدین کے بعد پاکستان کا تیسرا  گورنر جنرل بنا دیا گیا-  یہ وہیل چیر (wheelchair)  کے بغیر نہ  چل سکتا  تھا، نہ اپنے ہاتھوں سے لکھ پڑھ  سکتا  تھا '  اور نہ کویی اسکی باتوں  کو سمجھ سکتا تھا-  ان تمام معذوریوں کے باوجود  وہ  چار سال گورنر جنرل کے عہدہ پر فایز رہا-  ملک غلام محمّد، لیاقت علی خان کی کیبنٹ میں رہ چکا  تھا -  کیبنٹ کے سبھی ممبران  اس کی بری عادت و خصلت، مثلا عورت پرستی،  خود غرضی،  خود سری،  ہٹ دھرمی،  دھونس، دھاندلی اور ایچ پیچ  کو جانتے تھے-  یہ سب کچھ جانتے بوجھتے ہوۓ بھی جب اسے   بستر علالت سے اٹھا کر گورنر جنرل کی کرسی پر بٹھا دیا گیا تو یہ ایک ایسی سیاسی غلطی  تھی  جس کا خمیازہ پاکستان آج تک بھگت رہا ہے-

      ملک غلام محمّد کی معزولی کے بعد اگست ١٩٥٥ میں میجر جنرل اسکندر مرزا  نے  گورنر جنرل کا عہدہ سنبھالا-  یہ صاحب جوڑ توڑ کے ماہر تھے- نۓ  آیین کے تحت ملک میں پہلا عام انتخابات سے بچنے کے لئے اس نے جنرل محمّد ایوب خان، جو اندنوں آرمی کے چیف تھے، ان سے ساز باز کر کے ٧ اکتوبر١٩٥٨ کو پورے ملک میں مارشل لاء کا نفاذ کر دیا-  آیین منسوخ کر دیا گیا،  مرکزی اور صوبائی حکومتیں اور اسمبلیاں توڑ دی گیں، اور جنرل محمّد ایوب خان چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گئے-   آیین کی منسوخی کے ساتھ ہی صدر کا عہدہ بھی ختم ہو گیا تھا-  ٢٦ اکتوبر ١٩٥٨ کی رات میجر جنرل اسکندر مرزا اپنی بیگم ناہید مرزا کے ساتھ پریذیڈنٹ ہاؤس سے ہمیشہ کے لئے روانہ ہو گئے-  جمہوریت کو پامال کرنے کا جو عمل ملک غلام محمّد نے شروع کیا تھا میجر جنرل اسکندر مرزا نے اسے پایے تکمیل تک پہونچا دیا-

       پاکستان فوج کا سیاست میں عمل دخل  کا حال جاننے کے لئے ہمیں اواءل دور میں پاکستان ملٹری کی کثیرالجھتی ٹریننگ اور فرا یض کے ساتھ ساتھ اندنوں کی سیاسی اور ملکی سلامتی کے تقاضوں کو دیکھنا  ہوگا-  اندنوں حالات  کا تقاضا تھا کہ پاکستان ملٹری ملک کی بقا و سلامتی کے لئے سرعت کے ساتھ اپنے اداروں کو  بذریع  تعلیم و تربیت  صحیح خطوط پر گامزن کرے-  سیاسی اداروں کو اسطرح کے ہنگامی حالا ت  کا سامنا نہ تھا-  اس لئے سیاسی اداروں کے  بیوروکریٹس  اپنی ذاتی مفاد پرستی میں لگ گئے-  سیاسی اور سماجی سطح کی بد نظمی اور لوٹ کھسوٹ  جب فوجی اداروں کی  کا رکردگی پر اثر انداز ہونا شروع ہوئی تو بالاخر فوج کو سیاسی معاملات بھی اپنے ہاتھوں میں لینا پڑگئے-  سیاست میں فوج کی دخل اندازی جنرل ایوب خان (١٩٥١ – ١٩٥٨)  کے وقت سے شروع  ہوئی، اور آج جنرل  راحیل شریف تک جاری ہے-  سیاست میں فوج کا عمل دخل برابر تعمیری نہ تھا-  کبھی کبھی یہ عمل دخل تخریبی بھی ہوتا تھا- جیسے سقوط ڈھاکہ میں یحییٰ خان کی کارکردگی اور جنرل ضیاء الحق کا افغانستان میں عمل دخل، پاکستانی سیاست کے لئے آجتک درد سر بنا ہوا ہے-

     ١٩٥٨ میں  ایوب خان نے اتے ہی پاکستان کو اپنی بنیادی جمہوریت کا تجربہ گاہ بنایا-  اور بیشمار سیاسی، سماجی اور معاشی اصلاحات کی مہم شروع کردی-  علیل ہوۓ تو اقتدار ایک سیاسی ہاتھوں میں نہ دیا بلکہ فیلڈ مارشل یحییٰ خان کو سونپ دیا، جس نے ذوا لفقار علی  بھتو کے ساتھ ساز باز کر کے مشرقی پاکستان کو کھو دینا گوارا کر لیا،  لیکن نصف  پاکستان پر اپنی غیر اءینی اور غیر قانونی حکمرانی کو کھونا پسند نہ کیا-    (سقوط ڈھاکہ پر دیکھیے میری تحریر،  بلاگ : "com.IsrarHasan" میں)   عنوان
“East Pakistan Tragedy: A Daily Diary”
    
       بھتو کو تختہ دار پر لٹکا کر اسوقت کے آرمی چیف، ضیاء الحق نے جولائی ١٩٧٧ میں اقتدار اپنے ہاتھوں میں لے لیا –  افغانستان میں امریکا اور روس، دو سانڈھوں کی جنگ میں پاکستان کود پڑا-  روس اور امریکا تو چلے گئے لیکن پاکستان آجتک اس غلطی کا خمیازہ بھگت رہا ہے-  ١٩٨٥ میں مارشل لاء ختم ہوا  تو  ایک نیے الیکشن کے نتیجہ میں محمّد خان  جونیجو، وزیر اعظم منتخب ہوۓ-  جونیجو کو ضیاء کے کیی یک  پالیسی پر اعترا ضات  تھے-   ضیاء نے جونیجو کو وزارت سے ہٹا کر نومبر ١٩٨٨ میں ایک نیا الیکشن کا اعلان کر دیا،  لیکن اسی دوران ایک  ہوا ئی حادثہ میں جنرل ضیاء  چل بسے-  ضیاء اور جونیجو کے بعد سول اور ملٹری کا   میوزیکل چیر گیم  نواز شریف کے  دوسرے دور  حکومت میں ظہور پذیر ہوا،  جب آرمی چیف،  پرویز  مشرّف کی فوجی بغاوت کا قضیہ ١٩٩٩ میں رونما ہوا-  یہ  کسی جاسوسی کہانی سے کم دلچسپ نہیں تھا -  اس سانحہ کے بعد موجودہ عہد میں نواز شریف کی  تیسری حکومت میں سا ری جمہوری اداروں کی موجودگی میں آرمی چیف راحیل شریف  کے عمل دخل نے ایک نہایت دلچسپ اور سنسنی خیز سیاسی صورت حال بنا دیا ہے-  ایک حکومت میں دو سربراہ، یعنی ایک نیام میں دو تلوار بیک وقت موجود ہیں-  کرپٹ حکومت اورفوجی  طاقت کا  یہ امتزاج پاکستانی قوم نہایت دلچسپی سے دیکھ رہی ہے-     

           دراصل پاکستان میں شروع ہی سے چند بنیادی خرابیاں موجود چلی آ رہی ہیں-  پاکستان کے دواہم  بنیادی ستون، قائد اعظم  ١٩٤٨ میں اور لیاقت علی خاں ١٩٥١ میں چل بسے -  متحدہ ہندوستان میں پاکستان کی تحریک ایک " قومی نظریہ" کی بنیاد  پر کامیاب ہوا  تھا، لیکن پاکستان بنتے ہی یہ "قومی نظریہ"  "اسلامی نظریہ" میں تبدیل کر دیا گیا جس نے ہر طرح کی مذہبی، طبقاتی، نسلی، لسانی، اور گروہی منافرت ، منافقت اور دہشت گردی کو جنم دیا-  پاکستان کی اس بنیادی سازش میں اسوقت کے صاحب اقتدار  سیاسی اور فوجی لیڈران،  بیوروکریٹ، زمیندار، جاگیردار، اور نام نہاد مذہبی رہنماوں کا خود ساختہ  ٹولہ  شامل تھا-

       پاکستان بننے کے( ٩) نو سال بعد ١٩٥٦ میں جب پاکستان کا پہلا آئین وجود میں آیا اسوقت نظریہ پاکستان کے ایک ایک اکابرین انتقال کر چکے تھے-  ١١ اگست ١٩٤٧ کو پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کی کراچی اجلاس  میں اپنی  افتتاحیہ صدارتی تقریر میں قائداعظم نے پاکستان کے آئین  کی بنیادی اصولوں  کا جو خاکہ پیش کیا تھا، پاکستان کی پہلی آیین ساز اسمبلی ان بنیادی اصولوں کی پاسداری نہ کر سکی،  اور آج پاکستان ایک خود مختار جمہوری ریاست کی جگہ ایک مذہبی اور طبقاتی ریاست کے طور پر دنیا کے نقشہ میں موجود ہے -  آج کا "اسلامی جمھوریہ پاکستان" نہ تو اسلامی ہے نہ ہی جمہوری- لیکن ایک جوہری صلاحیت کا حامل ضرور  ہے-
      اسلامی طرز حکمرانی میں دراصل جمہوری طرز حکمرانی شامل ہے-  فرق صرف اتنا ہے کہ اسلامی طرز حکمرانی میں اقتدار اعلی قانون الہی کو حاصل  ہے جو شریعت اسلامی کے قوانین عدل و انصاف پر مبنی  ہوتا ہے نہ کے پارلیمان کی اکثریت کی رضا مندی پر-  اسلامی طرز حکمرانی  کا عملی مظاہرہ عھد نبوی، اور  چاروں خلفائے راشدین کے عہد میں ہو چکا ہے- انکے علاوہ  عہد حاضر میں افریقہ، ایشیا اور وسطی ایشیا کے کءی یک  مسلم ممالک میں اسلامی اور مغربی  طرز حکمرانی کے امتزاج پر طرز حکومت کا  سسٹم  رائج ہے، جن سے پاکستان اگر اسلامی نظام کا مخلص ہوتا تو ان ممالک سے استفادہ کر سکتا تھا-  لیکن شروع ہی سے حکمران ٹولے کی نیت تو کچھ اور تھی-  اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نظام حکمرانی  شروع ہی سے قبضہ گروپ کے نظام حکمرانی پر مشتمل رکھا گیا ہے-

        قائد اعظم  نے ١١ اگست ١٩٤٧ کو کراچی میں  پاکستان کی آیین ساز اسمبلی کے افتتاحیہ صدارتی تقریر میں پاکستان کے چند بنیادی اصولوں کا جو نقشہ پیش کیا تھا اسکا خلاصہ مختصرا  درج ذیل ہے-

(١)  پاکستان کی خود مختار ریاست کا پہلا اور سب سے اہم فریضہ پاکستانی عوام کے  جان ومال اور ایمان قائد کی حفاظت ہوگی-

(٢ ) دوسرا  فریضہ  یہ  کہ ریاست پاکستان  رشوت  اور  کرپشن  کا  سدباب کریگی -  تجارت  میں  چور بازاری  اور  ملازمت  میں اقرباء  پروری کا قلع قمع کریگی -

(٣)   متحدہ  ہندوستان میں اقلیتی مسلمانوں کے حقوق کا آئینی تحفظ  صرف اور صرف ریاست پاکستان کے قیام میں مضمر تھا-  اب جبکہ پاکستان ایک حقیقت ہے، یہی بہتر ہے کہ ہم ماضی کی تلخیوں کو فراموش کردیں اور ریاست پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لئے کام کریں- یہ بھول جایں کہ متحدہ ہندوستان میں ہمارا ایک دوسرے  سے کیا رشتہ تھا-  اب ہم سب بغیر کسی ذات پات،  رنگ  و نسل،  مذہب وعقیدہ کی تفریق کے پاکستانی ہیں اور ہمارے حقوق و فرائض یکساں ہیں-  کچھ دنوں بعد آپ  دیکھیںگے  کہ  ہندو نہ ہندو ہوگا اور مسلمان نہ مسلمان ہوگا،  مذہبی  معنوں میں نہیں، کیونکہ مذہب ہر ایک کا ذاتی عقیدہ ہے،  بلکہ سیاسی معنوں میں کہ ہر کویی ریاست پاکستان کا مساوی باشندہ ہوگا-  آزاد پاکستان میں ہم سب اپنے اپنے  مذہب اور عقیدہ میں آزاد ہونگے-  مسجد ھو یا مندر، گرجا ہو یا گردوارہ  جہاں چاہیں ہم  جا سکتے ہیں-  کاروبار ریاست سے اسکا کویی تعلق نہ ہوگا-

(٤)    ان بنیادی اصولوں کے ساتھ پاکستان میں ہم سب مساوی حقوق و فرایض کے پابند ہونگے-

       قائد اعظم کی پوری تقریر انگریزی میں ہے- تقریر کا صرف چیدہ چیدہ متن میں نے اردو میں ترجمہ کیا ہے-  میرا  مشورہ ہے کہ قارئین کرام قائد اعظم کی پہلی دستور ساز  اسمبلی کی تقریر کا مطالعہ کریں اور ساتھ ہی "اسلامی جمہوریہ پاکستان" کی آیین میں قرار داد مقاصد کا مطالعہ کریں اور خود فیصلہ کریں کہ آجکا پاکستان کس حد تک قائد کا پاکستان ہے اور کس حد تک "جناح کے ساتھ ساتھ جناح کا پاکستان بھی دفن ہو گیا ہے-"  (اردشیر کاوس جی- روزنامہ ڈان، جولائی ٢٠٠٠ع ) -  پاکستان کے ساتھ ساتھ ہم   پاکستانی ایک  بہت بڑے سازش کا شکار ھیں-  اس ہمہ گیرسازش کا  عوامی ادراک ہی ہماری نجات کا زریعہ بن سکتا ہے- 

       ١٤ جولائی ١٩٤٧ (اعلان پاکستان سے ٹھیک ایک ماہ پہلے) نئی دہلی میں  قائد اعظم نے ایک پریس کانفرنس کو ایڈریس کیا -  (اس کانفرنس  کے  اقتباسات  آکسفورڈ  یونیورسٹی  پریس کی  کتاب:
  Jinnah: Speeches and Statements 1947-1948
 میں دیکھا جا سکتا ہے)- حاضرین  میں  سے  ایک  نے سوال  کیا-

  سوال:  پاکستان  میں  گورنر جنرل  کی  حیثیت  سے  اقلیتوں  کے لئے اپکا کیا پیغام  ہوگا؟
       قائد اعظم  نے جواب دیا: "اس یقین پر کہ ١٥ اگست کو میں گورنر جنرل کے عہدہ پر فایز  ہونگا  میں یقین دلاتا ہوں کہ اقلیتوں سے متعلق جو کچھ میں پہلے کہ چکا ہوں اس سے منحرف نہ ہونگا-  جب بھی اور جو کچھ اقلیتوں سے متعلق میں کہتا رہا ہوں اسکا معنی اور مطلب وہی ہے جو کچھ میں کہتا رہا ہوں -  پاکستان کی اقلیت خواہ  جس فرقہ سے بھی ہوں، وہ محفوظ ہونگے، اور اپنی اپنی روایات و مذاہب کی پیروی میں بلکل آزاد ہونگے -  انکی جا ن   و مال، مذھب و عقیدہ اور انکی تہذیب و تمدّن کی مکمّل محافظت ہوگی -  وہ بغیر کسی نسلی یا مذہبی تفریق کے پاکستانی سٹیزن (citizen) ہونگے-   وہ یکساں حقوق و فرایض کے حامل ہونگے -  اس لئے اکثریت کے ساتھ ساتھ اقلیت کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ ملکی معاملات سے متعلق وہ اپنے فرا یض  ادا کرینگے اور ریاست پاکستان کے کاموں میں اپنا حصّہ پورا کرینگے -  جب تک اقلیت ریاست پاکستان کے وفادار رہینگے اور اپنی وفاداری پاکستان کے ساتھ رکھیںگے انکو کسی خوف و خطر کی ضرورت  نہیں ہوگی جب تک میں اقتدار میں رہونگا-

سوال:  کیا اپ اقلیتوں کا پاکستان میں رہنا یا ہندی مسلمانوں کے ساتھ انتقال آبادی کرنا پسند کرینگیں؟

جواب:  پاکستان کی حد تک میں وثوق سے کہ سکتا ہوں کہ یہاں اقلیت کو کسی قسم کی تشویش یا خوف کی ضرورت نہ ہوگی-  یہاں رہنے یا وہاں جانے کا فیصلہ سراسر انپر منحصر ہے-  مختصرا میں یہی کہ سکتا ہوں کہ پاکستان میں انکو کسی خوف و خطر کا اندیشہ نہ ہوگا-  یہ فیصلہ اقلیتوں کا اپنا ہوگا، میں انپر کویی دباؤ یا  حکم صادر نہیں کر سکتا-

سوال:  کیا پاکستان ایک سیکولر ریاست ہوگی یا مذہبی ریاست؟

جواب:  اپ مجھ سے ایک ایسا سوال پوچھ رہے ہیں جو سراسر بےمعنی  ہے-  مجھے نہیں معلوم مذہبی ریاست کے کیا معنی ہے؟  حاضرین میں سے ایک نے تشریح  کرتے ہوۓ کہا، "ایک مذہبی ریاست وہ ریاست ہے جس میں ایک خاص مذہب کے لوگ،  مثلا صرف مسلمان، اسکے مکمل سٹیزن (citizen) ہوتے ہیں اور غیر مسلم اسکے سٹیزن نہی ہوتے-"

جواب:  اسکا مطلب یہ ہوا کہ جو کچھ ابھی میں نے کہا ہے یہ ایک  بطخ کے اوپر پانی ڈالنے کے مصداق ہے-  جب اپ ڈیموکریسی کی بات کرتے ہیں تو مجھے شک ہے کہ اپ نے اسلام کا مطالعہ نہیں کیا ہے- اسلام چودہ سو سال پہلے جمہوریت کا درس دیچکا ہے-

      پاکستان اسوقت تک صحیح ٹریک (track) پر نہیں ھو سکتا جب تک دستور پاکستان کی اصلاح قائد کے اصولوں پر نہ کی جائے-  دستور پاکستان میں بنیادی اصلاحات کے علاوہ بھی دیگر ناسور ہیں جنکا مداوا ضروری ہے-

      پاکستان کی چونسٹھ (٦٤%) فیصد آبادی دیہی ہے جو مزدور کسانوں پر مشتمل ہے-  جو نہ تو زمین کے نہ جائداد کے ما لک  ہوتے ہیں- پاکستانی ووٹرز کی اکثریت لازما دیہی ووٹرز پر مشتمل ہے- پاکستان کی زمینداری اور پٹواری سسٹم نے پاکستانی ووٹرز کی اکثریت کو زمینداروں کا یرغمال بنا رکھا ہے-  اسطرح شہری مزدور اور ملازمت پیشہ لوگ کارخانوں کے مالکان اور مختلف دفاتر اور کارپوریشن کے مالکان کے ہاتھوں میں یرغمال بنے ہوۓ ہیں-  جمہوریت کو پاکستان میں قابل عمل بنانے میں سب سے بڑی روکاوٹ پاکستان کا جاگیرداری نظام ہے-  بھارت نے جمہوریت کو قابل عمل بنانے کے لئے آزادی کے فورا  بعد پورے ملک میں پھیلے ہوۓ ایک سو پینتیس (١٣٥)  خودمختار ریاستوں کی زمین داری اور جاگیرداری نظام کو منسوخ کر دیا تھا-

      زمین کی زمینداری کی طرح پاکستان میں مذہب اور عقیدہ کی ٹھیکہ داری بھی رایج ہے-  سنی، شیعہ، دیوبندی، بریلوی، وغیرہ، وغیرہ کے پیروکار نہ صرف پاکستانی معاشرہ میں منافرت اور فرقہ واریت کا سبب بن رہے ہیں،  بلکہ انکے ووٹرز کے ووٹ بھی عقاید کی جتھ بندی میں بٹے ہوۓ ہیں خواہ  وہ  گروہ  طالبان کی ہو یا  جیش محمدی  کی یا  سپاہ صحابہ  کی-

      پاکستان شروع  ہی  سے  تضادات  کا  مجموعہ ہے-  اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نہ تو اسلام ہے نہ جمہوریت-  ملک میں عدلیہ سسٹم  رایج ہے ،  لیکن عدل و انصاف ندارد-  عوامی نمائندوں پر مشتمل وفاقی اور صوبائی پارلیمنٹ موجود ہیں، لیکن عوامی شکایات اور تقاضوں کی نمایندگی ندارد- ایسا ہی تضاد حکومت کے تمام وفاقی اورصوبائ اداروں  میں موجود  ہے -  ملک کے چاروں صوبے چار مختلف سیاسی پارٹیوں میں منقسم ہیں،  لیکن کویی صوبہ نہ تو عوامی خواھشات و جذبات کی نماءندگی کرتا ہے نہ ہی کویی صوبہ خود کفیل ہے-  پاکستان بحیثیت مجموعی IMF جیسے بین الاقوامی  قرض دہندوں کے ہاتھوں گروی ہے-
      پاکستان کی خارجہ پالیسی شکست و ریخ کا شکار ہے-  بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے ہی-  اب افغانستان اور افغان طالبان کی نیک نیتی پر بھی اعتماد نہیں  کیا جا سکتا-  اندرون ملک تحریک طالبان پاکستان، داعش، اور بیشمار مذہبی شدت پسند  جماعتیں سرگرم عمل ہیں، جنکے خلاف ضرب عضب گزشتہ ایک سال سے  جاری ہے-  دہشت گردوں اور شدّت پسندوں کے علاوہ پاکستان کی پوری عملی اور سماجی زندگی میں
بیوروکرٹس  کی  کرپشن، اشیاءے ضرورت میں ملاوٹ' بازاروں میں حرام جانوروں کے گوشت کی فروخت،  چرس اور ہیروئن کے کاروبار کرنے والے لوگ، غرض سماجی برایوں کی ایک لمبی فہرست موجود  ہے- 

      پاکستان کی سیاسی، سماجی اور معاشی ابتری حالت اس نہج کو پہنچ چکی ہے کہ ملک کی  بقاء  و سلامتی نہ تو سیاسی لیڈروں کو انکی ذاتی لوٹ کھسوٹ سے روکنے میں ہے،  نہ ہی افواج پاکستان کی ضرب عضب میں ہے-  یہ ہے تو صرف اور صرف پاکستان کی  مکمل  سیاسی، سماجی اور معاشی اداروں کی ہمہ گیر تطہیر میں ہے،  قانون کی حکمرانی میں ہے اور اصولی جمہوریت کی عملی بحالی کے ساتھ ساتھ ملک سے ہر قسم کی دہشت گردی اور کرپشن کے خاتمہ میں ہے-  اور یہ سب، کچھ  زیادہ ہی  مشکل کام ہے، لیکن نا ممکن نہیں-  
       اچھی بات یہ ہے کہ پوری قوم بشمول افواج پاکستان  کو بالاخر یہ ادراک ہورہا ہے کہ ہم سب تباہی کے دہانے پر آ کھڑا ہوۓ ہیں- دوسری اچھی بات یہ ہے کہ اپنے بگڑے حالت کو سدھارنے کے لئے ہم  سب آزاد اور خود مختار ھیں – اچھے اور برے کا کنٹرول اپنے ھاتھوں میں ہے - ملک کسی غیرملکی طاقت کے کنٹرول میں نہیں ہے-  پھر بھی پاکستان کی اصلاح اتنا آسان نہیں ہے- پوری قوم کی اصلاح میں ہی پاکستان کی اصلاح مضمر ہے-

      انسانی نفسیات کی پیشن گویی محال ہے-  پاکستانی قوم ایک ایسی روشن تاریخ کی وارث ہے  جس نے دس سال کے قلیل عرصہ میں ایک  راہزن اور اخلاقی پستی میں ڈوبی قوم  کو دنیا کے ایک بڑے خطے کا پاسبان بنا دیا-  زمانہ نبوی کے سارے صحابہ کرام  اسلام سے پہلے یا تو بت پرست  تھے یا حا نف-  وہ  پیداشی مسلمان نہ تھے-  لیکن انقلاب محمّدی صلعم نے انکے دل و دماغ  کو ایک پل میں بدل کر رکھ دیا اور عرب کا پورا معاشرہ دس سال کے قلیل عرصہ میں بدل گیا-  ایمان و خلوص کی فتح ہویی، اور کفر و باطل کو شکست-  تاریخ عالم میں اسطرح کی مثالیں عہد وسطہ اور عھد حاضر قوموں کی تاریخوں میں موجود  ہیں-  پاکستان کو اپنی ہمہ جہتی  زبوں حالی کو  بدلنے کے لئے جو کچھ چاہیے وہ فقط سیاسی لیڈروں اورسماجی  ٹھیکیداروں کی جانب سے خلوص نیتی اور خلوص عمل چاہے-  ورنہ ہر ابتری کی حالت میں راحیل شریف پیدا  ہوتے رہیںگے-
E-mail: ihasanfaq@yahoo.com
Blog: www.IsrarHasan.com                                      
-x-

No comments:

Post a Comment