RIGHTEOUS-RIGHT

Help one another in righteousness and pity; but do not help one another in sin and rancor (Q.5:2). The only thing necessary for the triumph of evil is for good men to do nothing. (Edmond Burke). Oh! What a tangled web we weave, When first we practice to deceive! (Walter Scott, Marmion VI). If you are not part of the solution …. Then you are part of the problem. War leaves no victors, only victims. … Mankind must remember that peace is not God's gift to his creatures; it is our gift to each other.– Elie Wiesel, Nobel Peace Prize Acceptance Speech, 1986.

Thursday, July 27, 2017

کشمیر - ایک تاریخی ناسور (قسط ٢)


 تخلیص و تحریر:  اسرار حسن
تاریخ:  ١٦ جولائی ٢٠١٧

٢٦ اکتوبر ١٩٤٧ کو نہرو اور پٹیل کے ایما ء  پر ہندوستان کی پہلی سکھ رجمیںٹ دھلی سے سرینگر پہنچنا شروع ہوگئے -  بارہ مولا میں قبایلی پٹھان حملہ اوروں کو جب سکھ رجیمںٹ کی آمد کا پتہ چلا تو وہ بارہ مولا سے نکل کر مظفر آباد کی طرف آ گئے-  چند دنوں بعد ھری سنگھ Instrument of Accession پر اپنا دستخط کرتے ہوۓ ہندوستان سے پٹھان حملوں کے خلاف مدد کی درخواست کی-  نہرو نے مہاراجہ ھری سنگھ اور اسکے وزیر اعظم مہاجن کو اپنی مدد کا یقین دلایا اور ساتھ ہی ھری سنگھ کو شیخ عبدللہ کو کشمیر کا چیف منسٹر  بنانے پر اسکو راضی کیا-
بین الاقوامی مخالفت کا سامنا کرنے کے لئے نہرو نے برطانیہ کے وزیر اعظم ایٹلی (Attlee) کو بذریعہ ٹیلیگرام  یہ یقین دلایا  کہ "اس ہنگامی حالت میں کشمیر کی مدد کسی طرح بھی ریاست  کشمیر کو ہندوستان سے الحاق پر مجبور کرنا نہیں ہے-  ہمارا موقف اب بھی یہی ہے کہ ریاست کشمیر کے الحاق کا مسلہ ریاست کے عوام کی خواھش کے مطابق ہونا چاہیے-" [حوالہ-١] 
مہاتما گاندھی اپنی دھلی کی پراتھنا میٹنگوں میں برابر یہی کہتے رہے کہ "کشمیری عوام کی راۓ لی جائے کہ پاکستان اور ہندوستان میں سے کس کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں- وہ جیسا چاہتے ہیں ویسا ہی انھیں کرنے دیا جائے-  اس میں حکمران کی نہیں عوام کی خواھش اہم ہے-" [حوالہ-٢] 
جواہر لعل نہرو اسبات پر راضی تھے کہ ریاست میں عوامی را ۓ ضرور ہونی چاہیے-  لیکن پہلے باغی طاقتوں کو نکا ل باھر کر کے امن و امان کی حالت پیدا کی جائے-
ھر شام پراتھنا کی میٹنگ میں لوگ مہاتما گاندھی سے سوال کرتے کہ مسلہ کشمیر پر انکا کیا موقف ہے؟  اور مہاتما گاندھی یہی کہتے کہ اگر کشمیری عوام پاکستان کے حق میں ہیں تو انھیں دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی ہے-  انھیں انکی استصواب راۓ میں بلکل آزاد چھوڑ دیا جائے-  اگر کشمیر کے عوام مسلمان اکثریت ہونے کے باوجود ہندوستان میں شامل ہونا چاہیں تو انھیں کوئی طاقت  نہیں روک سکتی ہے-  اگر ہندوستان کے لوگ کشمیر جا کر کشمیریوں کو ہندوستان میں شامل ہونے پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہیں تو انھیں ایسا کرنے سے باز آنا چاہیے-  مجھے اپنے موقف میں ذرا بھی شک و شبہ نہیں ہے-"  [حوالہ٣ ]  
نہرو نے کشمیری پنڈت جنرل ھیرا لعل اٹل  کو سرینگر بھیجا تا کہ وہ وہاں ایک خفیہ مشن پر کام کرے-  خفیہ مشن میں ایک کا م یہ شامل تھا کہ دریا ۓ جھیلم پر جتنے پل تھے انکو بم لگا کر اڑ ا دیا جائے-  "یہ ایک رسکی کا م ہے، لیکن ہے ضروری-" نہرو نے جنرل ہیرا لعل اٹل  سے کہا-[حوالہ- ٤]
تقسیم ہند کے بعد کشمیر میں جو صورت پیدا ہوئی تھی نہرو نے سا رے اھم کاموں کو نظر انداز کر کے صرف کشمیر کی جنگ پر اپنی توجہ مرکوز رکھا-  وہ جنرل اٹل  کو سمجھاتے  رہے  کہ کشمیر پورے ہندوستان کے لئے کتنا اہم ہے-  کشمیر پرابلم کا حل در اصل پورے ہندوستان کے پرابلم کا حل ہے-  کشمیر میں اگر یہ حقیقت ثابت ھوجا تی ہے  کہ کشمیر کی آبادی میں بسنے والے ہندو، مسلم  اور سکھ عیسا ئی  ساری آبادی کشمیر کی حفاظت پر کمر بستہ ہے تو یہی اصول پورے ہندوستان کی آبادی پر بھی لیا جا سکتا ہے-"  [حوالہ-٥]
برطانوی وزیر اعظم ایٹلی Attlee کو جب کشمیر میں خانہ جنگی کا پتہ چلا تو اس نے نہرو سے صورت حال کی تفصیل مانگی-  نہرو نے اسے بتایا کہ " تقریباً دو ہزار پیشہ ور جنگجو پوری جنگی سامان سے لیس ہو کر ملٹری ٹرک پر کشمیر میں داخل ہوۓ-"  نہرو نے Attlee کو ٢٨ اکتوبر کو بذریعہ تار بتاتے ہوۓ کہا- "مہاراجہ نے ہم سے فوری مدد کی درخواست کی اور ہندوستان کے ساتھ کشمیر کے الحاق کا عندیہ دیا-  ہم نے پہلے کشمیر میں ہندی فوج نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا-  لیکن وقت کے ساتھ جب حالا ت  خراب ہوتے گئے تو ہم نے کشمیر میں ہندوستانی فوج بھیجنے کا فیصلہ کیا قبل اسکے کہ پورا کشمیر تباہ ہو جائے-  آج صبح ایک بٹالین بذریہ ہوائی جہاز سرینگر  بھیجا گیا-  ہماری پالیسی جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ھوں برابر یہ رہی ہے کہ غیر طے شدہ ریاست کا فیصلہ گفت و شنید  سے  ہونا چاہیے پھر وہاں کے عوام کی مرضی سے ہونا چاہیے-  ہماری یہ فوجی مداخلت فطرتاً اور عملان محض مدافیعا نہ ہے-  (حوالہ – ٦)
اسی دن نہرو نے پاکستانی وزیر اعظم لیاقت علی خان کو بھی بتایا-  لیاقت علی خان Attlee سے بھی زیادہ فکر مند تھے-  جس سرعت اور تعداد کے ساتھ ہندی فوج کی ایئر لفٹنگ ہو رہی تھی وہ با عث  تشویش تھی- نہرو نے لیاقت علی خان کو بتایا  کہ ہندوستان کی  حکومت کو  حالت کی نزاکت سے مجبور ہو کر، اور ریاست کشمیر میں دن بدن بگڑتی حالت سے مجبور ہو کر  ایسا قدم اٹھانا پڑا -  باغیوں کو نکا ل باھر کرنے کے بعد ہندوستان کی کشمیر میں مداخلت کی کوئی  خواھش نہیں ہے- (حوالہ – ٧)
اگلی دہا ئی  میں جب کبھی یونائیٹڈ نیشن سیکورٹی کونسل براۓ انڈیا – پاکستان (UNCIP)نے اپنا نمائندہ مشن  نہرو کے پاس بھیجا  تا کہ کشمیر میں سیکورٹی کونسل کے ماتحت الیکشن براۓ  استصواب را ۓ منعقد کرنے کے لئے نہرو کو راضی کیا جائے نہرو نے برابر اپنی رضا مندی دینے سے انکار کیا-  بلآخر  نہرو  کچھ عرصہ بعد UN کی نگرانی میں کشمیر میں استصواب راۓ کے لئے الیکشن کرانے کے اپنے سابقہ موقف سے بلکل مکر گئے-  اور اس سے ہٹ  کر  یہ موقف اپنایا  کہ کشمیر میں ہندوستان کا  ھر الیکشن UN کے استصواب راۓ کے الیکشن کے مساوی ہے-  اور اسی دوران اپنے دوست شیخ عبدللہ کو گرفتار کر لیا-  شیخ عبدللہ جو نہرو اور پٹیل کے ایما ء  پر کشمیر کے وزیر اعظم مقرر ہوۓ تھے انہوں نے ہندوستانی افواج کی کشمیر میں دنوں دن بڑھتی تعداد کے مخالف ہو رہے تھے اور استصواب راۓ کے لئے آزادانہ اور شفّاف الیکشن کے پر زور حامی ہو رہے تھے-
اکتوبر کے آخر میں قائد اعظم پاکستانی فوج کا دو بریگیڈ کشمیر میں ہندوستانی افواج کی سر کوبی کے لئے بھیجنا چاہتے تھے- لیکن فیلڈ مارشل Auchinleck  نے قائد اعظم کو روک دیا-  فیلڈ مارشل Auchinleck فور‌‌‌‍‍ن بذریہ ہوائی  جہاز لاہور پہنچے اور پاکستان کے گورنر جنرل قائد اعظم کو اپنا حکم نامہ واپس لینے کو کہا-  اس نے کہا اگر قائد اعظم اپنا حکم نامہ واپس نہیں لیتے تو پاکستانی افواج میں مقرر  سا رے برٹش عملہ اپنی فوجی ڈیوٹی سے دست بردار ہو جاینگے-  پاکستان کے برٹش کمانڈر ان چیف، C-n-C General Douglas Gracy  کے ایک حکم نامہ پر پاکستان کے سا رے برٹش عملہ دست بردار ہو جاینگے- اور پوری پاکستانی افواج بغیر کسی کمانڈر کے ہوگی-  General Douglas Gracy ان دنوں ساؤتھ ایشیا کے برٹش افواج کے سپریم کمانڈر   Field Marshal Auchinleck کے ماتحت کا م کر رہے تھے- بالاخر قائد اعظم کو کشمیر میں پاکستانی افواج بھیجنے کا حکم نامہ واپس لینا پڑا اور کشمیر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہندوستان کی جھولی میں ڈال دینا پڑا-  اسوقت  قائد اعظم کو لارڈ مونٹ بیٹن کی مشترکہ گورنر جنرل کی پیش کش کو ٹھکرانے کا کتنا بڑا خمیازہ بھگتنا پڑا احساس ہوا- (حوالہ-٨)
(باقی آیندہ)  - فیس بک تاریخ ٢٦ جولائی ٢٠١٧

References:

 [1]      Letter from Nehru to Attlee, 25 Oct. 1947, Selected Work of Jaiprakash             Narayan,  p.275.
[2]       Gandhi’s Prayer meeting, 29 July, 1947, Collected  Works of Mahatma             Gandhi, 88, p.461.
[3]       Gandhi’s prayer meeting, 26 Oct. 1947, Collected Works of Mahatma             Gandhi, 89, pp.413-414.
[4]       Letter from Nehru to Gen. Atal, 27 Oct. 1947, Selected Work of             Jaiprakash Narayan vol.2, pp.283-284.
[5]       Ibid. pp.285-286.
[6]       Letter from Nehru to Attlee, 28 Oct. 1947,  Selected Work of Jaiprakash             Narayan, vol.2, pp.286-88.
[7]       Stanley Wolpert,  Jinnah of Pakistan, p. 352
[8]      Ibid. p. 353.

کشمیر - ایک تاریخی ناسور (قسط – ١)


تخلیص و تحریر:  اسرار حسن
تاریخ:  ١١ جولائی ٢٠١٧

تقسیم  ھند  کی  ایک  ناپسندیدہ  اور  نامکمّل  کہانی  کشمیر  کے  گرد  گھومتی  ہے-   برٹش  پارلیمان  نے  جب ٣ جون ١٩٤٧  کو   ہندوستان  کو  آزاد  کرنے  کا  فیصلہ  کیا  تو  دو  بڑے  اہم  مسایل  درپیش  آ ۓ-    ایک  پاکستان  کا  قیام  دوسرا  ٥٦٥  آزاد  ریاستوں  کا   ہندوستان  اور  پاکستان  میں  سے  کسی  ایک  کے  ساتھ  الحاق  کا  مسلہ  تھا-  ہندوستان  کے  شمال  مغرب  کی  مسلم  اکثریتی  صوبے  جن  میں  سندھ،  پنجاب،  بلوچستان  اور  سرحد  کے  علاقے  شامل  تھے  انہوں  نے  پاکستان  کے  ساتھ  الحاق  کا  فیصلہ   کیا-  اسی طرح  مشرق  میں  مشرقی  مسلم  بنگال  نے  پاکستان  کے  ساتھ  الحاق  کیا-  لیکن  دوسرا  بڑا  مرحلہ  ٥٦٥  آزاد  ریاستوں  اور  انکے  ساتھ  ساتھ  ہزاروں  زمینداروں  اور  جاگیرداروں  کا  الحاق  تھا-  یہ  آزاد  ریاستیں  پورے  ہندوستان  میں  جا  بجا  بکھرے  ہوۓ  تھے-   قانون  الحاق  کے  مطابق  ان  کو  کہا  گیا  کہ  ھند  و  پاک  میں  سے  کسی  ایک  کے  ساتھ   ١٥  اگست  ١٩٤٧  سے  پہلے  الحاق  کر لیں-  ہندوستان  کی  آزادی  کے  بعد  انکی  آزاد  حیثیت  ختم  ہو جاتی  ہے-      ا صولاً   مسلم  اکثریتی  ریاستوں  کو  پاکستان  کے  ساتھ  اور  ہندو  اکثریتی  ریاستوں  کو  ہندوستان  کے  ساتھ  الحاق  کرنا  تھا-  لیکن  ایسا  نہ  ہو  سکا-  ١٦ اگست ١٩٤٧  کو  تقسیم  ہند کے بارے میں جب ریڈ کلف ایوارڈ  کا  اعلان  ہوا  تو  ضلع  گورداس پور میں  واضح  مسلمان  اکثریت  ہونے  کے  باوجود  اسے بھارت  میں  شامل  کر دیا گیا-  بھارت  سے  کشمیر تک  کی  راہداری  صرف  گورداس پور  سے  ممکن  تھی-  اسی طرح  حیدرآباد  اور  جونا گڑھ  کی  آبادی میں  مسلمان  اکثریت  ہونے کے  باوجود  ہندوستان میں  شامل  کر  لیا  گیا-
کشمیر  کے  الحاق  کا  مسلہ  اس  لئے  پیدا  ہوا  کہ  کشمیر  کا  ہندو  حکمران،  مہاراجہ  ھری  سنگھ  آزاد  رہنا  چاہتا  تھا-  وہ  ھند و  پاک  میں  سے  کسی  کے  ساتھ  الحاق  نہیں  چاہتا  تھا-  لیکن اسکی  خواھش  پوری  نہ  ہو  سکی-  اکتوبر  ١٩٤٧  میں  پاکستان  سے  کشمیر  پر پٹھان   قبایلی  حملہ  نے  مہاراجہ  ھری  سنگھ  کو  ہندوستان  کے  ساتھ  الحاق  کرنے  پر  مجبور  کر دیا-  اس  صورت  حال  نے  معاملہ  کو  زیادہ  الجھا  دیا- 
٣ جون ١٩٤٧  کو جب تقسیم ھند کا  فارمولا  منظور ہوا  تو ہندوستان  کی  ٥٦٥  ریاستوں  کو  آزاد  چھوڑ  دیا  گیا  تھا  کہ وہ  اپنی  جغرافیائی  اور  معاشیاتی  حقایق  کے  پیش  نظر  اپنی اپنی  آبادی  کی  خوا  ہشات  کے  مطابق  بھارت  یا  پاکستان  سے  الحاق  کر لیں-  ریاست  جموں و کشمیر  کی  دو تیہآیی،  یعنی پچہتر  فیصد  آبادی  مسلمانوں  پر  مشتمل  تھی-  اسکی  سرحدوں  کے  چھ سو میل  مغربی  پاکستان  کے  ساتھ  مشترک  تھے-  ریاست  کی  واحد  ریلوے لائن  سیالکوٹ  سے  گزرتی تھی اور  بیرونی  دنیا  کے  ساتھ ڈاک و تار  کا  نظام بھی مغربی پاکستان  کے ذریع  قایم  تھا-  ریاست کی  دونوں  پختہ  سڑکیں  راولپنڈی  اور  سیالکوٹ  سے  گزرتی  تھیں  اور  کشمیر  کی  تمام  درآ مدات  اور  برآمدات  کا  راستہ  بھی  پاکستان  سے  وابستہ  تھا-  کشمیر  عملان پاکستان  کی  ایک  ذیلی  ریاست  تھی-  ان سب  حقائق  کے  پیش  نظر  جموں و  کشمیر  کا  پاکستان  کے  ساتھ  الحاق  لازمی  طور  پر  ایک  قدرتی  اور  منطقی  فیصلہ  تھا-   لیکن  مہاراجہ  ھری  سنگھ  کے  عزایم  کچھ  اور  تھے-
   مہاراجہ  ھری  سنگھ  آزاد  رہنا  چاہتا  تھا-  وہ  کشمیر  کو  ایشیا  کا  سویزرلنڈ  بنانا  چاہتا تھا-   اس  نے  ہندوستان  اور  پاکستان  دونوں  کے  ساتھ  Standstill  اگریمنٹ  کر  رکھا  تھا،  تاکہ  ١٥ اگست ١٩٤٧  کے  بعد  کشمیر  کے  کاروبار  ریاست  میں  کوئ   روکاوٹ  پیدا  نہ  ہو-  لیکن  اکتوبر ١٩٤٧  میں  حالا ت   نے  پلٹا  کھایا -  کشمیر  کو  آزاد  رکھنا  ممکن  نہ  رہا  اور  ہندوستان یا  پاکستان  میں  سے الحاق  کے لئے  کسی  ایک  کا  انتخاب  کرنا  اسکے  لئے  ضروری  ہو گیا-  پاکستان  کے  ساتھ  Standstill  اگریمنٹ  طے  ہوتے  ہی  مہاراجہ نے  جموں  اور  پونچھ  کی  آبادی  کو  مسلمانوں  سے  پاک  کرنے  کا  تہیہ کر لیا-  اس  مہم  کی  کمان  اپنے  ہاتھوں  میں  لے کر  ڈوگرا  فوج،  پولیس،  اور  راشٹریہ سیوم  سوک  سنگھ  (RSS)  کے  دستوں  کو  بھیڑیوں  کی  طرح  جموں  اور  پونچھ  کی  مسلم  آبادی  پر  چھوڑ  دیا-  قتل  و  غارت،  لوٹ  مار،  خواتین  کی  بے حرمتی  اور  جوان  لڑکیوں  کے  اغوا  کی  جو  قیامت  برپا  ہوئی،  اسے  الفاظ  میں  بیان  کرنا  آسان  نہیں-  اس  شورش  میں  بےشمار  لڑکیاں  اغوا  ہوئیں  ان میں  چودھری  غلام  عبّاس  کی  ایک  بیٹی  بھی  شامل  تھی-  جموں  کے  مسلمان  آبادی  کا  صفایا  کرنے  کے  بعد  مہاراجہ  نے  پونچھ  کے  مسلمانوں  کی  طرف  اپنا  رخ  کیا- 
پونچھ  کی  آبادی  میں  ٩٥ فیصد  مسلمان تھے-  پونچھ  کی  آبادی  دررانی اور  افغانی  نسل  کی  راجپوت  آبادی  پر  مشتمل  تھی-  پاکستان  کے    ملحقہ  اضلاع  سیالکوٹ،  گجرات،  جہلم،  اور  راولپنڈی  میں  انکی  بیشمار  رشتہ داریاں  اور  عزیز داریاں  تھیں-  ڈوگرہ  حکومت  کے  تیور  دیکھ  کر  مقامی  مسلمانوں  نے  اپنی  خواتین اور بچوں کو  پاکستان  میں  اپنے  رشتہ داروں  اور  دوستوں  کے  ہان  بھیج  دیا  اور  خود  ڈوگرہ  حکومت  کے  خلاف  جہاد  کے  لئے  تیار  ہو گئے-  پونچھ  کا  بیشتر  علاقہ  ان  قبایل  نے  آزاد  کرا لیا-  اکتوبر  ١٩٤٧  کے  وسط  میں  انہوں  نے  ایک  مرکزی  جنگی  کونسل  قایم  کر لی-  اور  ٢٤ اکتوبر  ١٩٤٧  کو  آزاد  جموں  و  کشمیر   کا  قیام  عمل  میں  آیا-  جس کے  پہلے  صدر  سردار  محمّد  ابراہیم  خان  تھے-  دس ہزار  میل  سے  زیادہ  رقبہ  آزاد  کرا لئے-  ان  میں  بھمبر،  میرپور،  کوٹلی،  مندھر،  راجوری،  اور  نو شہرہ  کو  آزادی  نصیب ہویی-
 کشمیر  کی  آبادی  کی  اکثریت  مسلمانوں  پر  مشتمل  تھی-  اصولا  مہاراجہ  کو  اپنا  الحاق  پاکستان  کے  ساتھ  کرنا  تھا-  لیکن  کشمیر  کا  الحاق  اس  نے  ہندوستان  کے  ساتھ  کیا-  واۓسرا ۓ  ھند   ماؤ نٹ بیٹن  نے  اس  الحاق  کو  اس  شرط  پر  منظور  کیا  کہ کشمیر  میں  امن و أمان  بحال  ہوتے  ہی  وہاں  استصواب  راے  کے  ذریع  الحاق  کا  فیصلہ  ہوگا-  اکتوبر  ١٩٤٧  میں  ماؤ نٹ بیٹن  نے  مہاراجہ  ھری  سنگھ  کو  جو  خط  لکھا  تھا  اس میں استصواب  راے کی   شرط کو   الحاق  سے  منسوب  کر دیا  تھا-
اکتوبر  ١٩٤٧  میں  کشمیر  کی  پہلی  جنگ  چھڑ  گی-  ضلع  پونچھ  کے  مسلمان  مزدور  کسان  اپنے  ضلع  کے  ہندو راجپوت  زمینداروں  کی  بڑھتی  ہوئی  ظلم و  ستم  کے  خلاف  اٹھ  کھڑے  ہوۓ-   ١٠ - اکتوبر  کے  لندن  ٹائمز  نے  رپورٹ کیا  کہ  منظّم  طریقے  سے  مسلمان  کسانوں  کو  مہاراجہ  کشمیر  کی  ایما ء  پر  صفایا  کیا  جا  رہا  ہے-   کشمیر  کے  مسلمان  مزدور کسان  نے  کثیر  تعداد  میں  پاکستان  ہجرت  کرنا  شروع  کر دیا-  پونچھ  کے    ظلم و  ستم  کی  کہانی  پاکستان  میں  آگ  کی طرح  پھیل  گئ -   اکتوبر  کا  مہینہ  ختم  ہونے  سے  پہلے  پاکستان  فرنٹیئر  کور  کے  قبایلی  پٹھان  انکی  مدد  کے  لئے  آگے  بڑھے اور  برٹش  آرمی  کے  ٹرکوں  میں  بھر بھر  کر  کشمیر  کی طرف  روانہ  ہو گئے-  ٢٢ اکتوبر  کو  قبایلی  پٹھانوں  نے  کشمیر  پر  حملہ  کر  کے  مظفر آباد  کو  اپنے  قبضہ  میں  لے  لیا  اور  اسے  پاکستانی  کشمیر  کا  دارلخلافہ  بنا  ڈالا-  ٢٤ اکتوبر کو  قبایلی جتھہ  نے  مھورا  پر قبضہ  کر کے وہ  پاور ہاؤس  اڑا دیا  جس  سے  سرینگر  شہر  کو  بجلی  فراہم  ہوتی  تھی-  رات ٩  بجے  جب  اچانک  سارا  شہر  گھپ  اندھیرے  میں  ڈوب  گیا،  اس وقت  مہاراجہ  ھری سنگھ  اپنے  راج محل  میں  دسہرہ  کا  دربار  لگاۓ  بیٹھا  تھا-
مھورا  سے  قبایلی  پٹھانوں  کا  لشکر  بارہ مولا  پہنچا  تو  دیکھا  کہ  ڈوگرا  فوج  اور  RSS کے  درندے  اس  شہر  کو  اپنے  ہاتھوں  تا خت  و  تا راج  کر  کے  پہلے  ہی  وہاں  سے  بھاگ  کھڑے  ہوۓ  تھے-  بارہ مولا  میں  قتل  و  غارت  اور  لوٹ  مار  کی  داستان  کے  دو  متضاد  بیانات  ہیں-  ایک  یہ کہ ھری سنگھ  کی  فوج اور  آر ایس ایس  کے  لوگوں  نے  جب  پٹھان  قبایل  کی  آمد  کی  خبر  سنی  تو  پورے  شہر  بارہ مولا  کو  اپنے   لوٹ  مار  اور  قتل  و  غارت  سے  تباہ  کر  کے  بھاگ  کھڑے  ہوۓ-   دوسرا  بیان  یہ  ہے  کہ قبایلی  پٹھانوں  کا  وحشی  جتھہ  ٢٤  اکتوبر  کو  بارہ مولا  داخل  ہوا اور  یہاں  دو  دنوں  تک  لوٹ،  مار،  قتل  و  غارت اور  ایک  عیسائی چرچ  'میری'  کے  راہباؤں کے  ساتھ  داد عیش  دیتا  رہا،  جبکہ  یہاں  سے  سرینگر  کا  ائیرپورٹ  فقط  ٣٠ میل  کے  فاصلہ  پر  تھا-  جسکو  چند  گھنٹوں  کی  مسافت  سے  طے  کیا  جا  سکتا  تھا- 
سرینگر  میں  مہاراجہ ھری سنگھ  کو  جب  فرنٹیئر کور  کا  قبایلی  جتھہ بارمولہ  پہنچجے  کی  خبر  ملی اور  جب  مھورا  کا  پاور  سٹیشن پر  پٹھانوں کا  قبضہ  ہونے  کے  بعد  پورا  سرینگر  اندھیرے  میں  ڈوب  گیا   تو  مہاراجہ  ھری سنگھ  اپنی  فیملی  ممبران  اور  ہیرے جواہرات  سے  بھری  قیمتی  اثاثوں  کے  ساتھ  وہ  سرینگر  سے  بھا گ  کر  جموں کے  جنوب  میں  آگیا-  (باقی آئنندہ)   فیس بک – جولائی ١١، ٢٠١٧