RIGHTEOUS-RIGHT

Help one another in righteousness and pity; but do not help one another in sin and rancor (Q.5:2). The only thing necessary for the triumph of evil is for good men to do nothing. (Edmond Burke). Oh! What a tangled web we weave, When first we practice to deceive! (Walter Scott, Marmion VI). If you are not part of the solution …. Then you are part of the problem. War leaves no victors, only victims. … Mankind must remember that peace is not God's gift to his creatures; it is our gift to each other.– Elie Wiesel, Nobel Peace Prize Acceptance Speech, 1986.

Tuesday, November 27, 2018

اسلام سے مسلمانوں کا تعلق


تحریر: اسرار حسن
فلوریڈا: ٢٨ نومبر ٢٠١٨
اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے دوران دنیا کے مسلمان ملکوں کا غیر ملکی حکومتوں سے آزادی اسلامی دنیا کے لئے ایک خوش ایند واقع تھا- یہ حقیقت اس اہمیت کا بھی حامل تھا کہ ان تمام نوزائیدہ مسلم ممالک میں جو مراقش سے انڈونیشیا تک پھیلے ہوۓ  تھے ان کی جد و جہد آزادی میں اسلام کا ایک بڑا عمل دخل تھا- لیکن بیسویں اور اب اکیسویں صدی میں ان تمام ملکوں کی دوسری اہم بات یہ ہے کہ ان میں کوئی بھی مسلم ملک عملی طور پر ایک ترقی یافتہ عملی-سیاسی ملک نہ بن سکا- ان باتوں کے علاوہ دوسری افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ ان خود مختار مسلم ملکوں کا کوئی ایک بھی مسلم سوسائٹی اپنی داخلی مسایل کو موجودہ صدی کے تقاضوں کے مطابق حل کرنے کی جد و جہد کرتی رہی لیکن اب تک کامیاب نہ ہو سکی ہے-
صرف ترکستان کا ایک ملک ہے جہاں اتاترک نے سیکولر نظام زندگی کو متعارف کرایا وہ آج تک اس پر گامزن ہے- ترکی کے علاوہ دوسرے مسلمان ملکوں کا معاشرہ برابر یہ محسوس کرتا رہا کہ انکے نظام ریاست میں جدید نظام ڈیموکریسی کے ساتھ اسلام اور شریعہ کا کچھ نہ کچھ عمل دخل ضرور ہونا چاہیے- ایسے ممالک کو سخت پرابلم کا سامنا ہے- یہ پرابلم نہایت اہمیت کے حامل ہیں- ایسے اسلامی ممالک جنہوں نے اپنے معاشرہ کو ماڈرن ڈیموکریسی کے تقاضوں پر لانے کی کوشش کی ناکام رہے- ایسا مسلم معاشرہ  سیکولرازم کی ایک مسخ شکل میں اجاگر ہوتا ہے- جو نہ تو ڈیموکریٹک ہوتا ہے نہ ہی اسلامی- وہ تضادات کا ایک مجموعہ ہوتا ہے-
اسلام کی ابتدائی فتوحات پر ایک نظر ڈالیں تو ھم اسلام کو ایسے بے شمار چیلنجز سے نبرد آزما پاتے ہیں-  عراق، شام، مصراور شمالی افریقہ کے ممالک میں اسلام کو بیشتر مخالف چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا تھا- یہ چیلنجز مذہبی اور نظریاتی بھی تھے اور سیاسی، سماجی، اقتصادی، بھی تھے- اسلام نے ان سارے چیلنجز کو کس طرح حل کیا اور کامیاب ہوا؟ یہ ایک علیحدہ موضوع ہے- پھر کبھی اس کو قلمبند کرونگا-
آج بھی اگراسلامیات اور فقہ اسلامی کو خالص اسلامی تقاضا کے مطابق عمل در آمد کرنے کا وقت دیا جائے اور اسپر کام کیا جائے تو آج بھی اسلام موجودہ سائینسی اور ڈیموکریسی کے تقاضوں کو پورا کر سکتا ہے- بشرطیکہ اس میں مختلف طبقہ فکر کے مسلم حکمرانوں اور انکے علماء کے ذاتی مفادات کا عمل دخل نہ ھو- اسلام کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی روکاوٹ مسلمانوں کے مختلف طبقہ فکر کے متصادم فقہ اور انکے متصادم مذہبی خیالات کا عمل دخل رہا  ہے-
دنیا کے ھر ترقی پذیر سوسائٹی میں جدیدیت اور قدامت پرستی کا ٹکراؤ رہا ہے- یہ کویی نئی بات نہیں ہے-  ضرورت اس بات کی ہے کہ ھر مسلمان ملک خلفائے راشدین کے نظام حکومت کے بنیادی اصولوں  کو صحیح سمجھے- اوراپنے موجودہ ملک کے پرابلم اور ضروریات کو صحیح سمجھے- اور انکو اسلامی اصول سے ھم آہنگ کرنے کی کوشش کرے- مسلمان حکمرانوں نے اگر ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر فوقیت دیا، جیسا کہ خلافت بنی امیہ سے خلافت عثمانیہ تک ہوتا آیا ہے تو اسلام کی ناہلی کی شکایت ہرگز جائز نہیں ھے-

No comments:

Post a Comment