RIGHTEOUS-RIGHT

Help one another in righteousness and pity; but do not help one another in sin and rancor (Q.5:2). The only thing necessary for the triumph of evil is for good men to do nothing. (Edmond Burke). Oh! What a tangled web we weave, When first we practice to deceive! (Walter Scott, Marmion VI). If you are not part of the solution …. Then you are part of the problem. War leaves no victors, only victims. … Mankind must remember that peace is not God's gift to his creatures; it is our gift to each other.– Elie Wiesel, Nobel Peace Prize Acceptance Speech, 1986.

Saturday, August 26, 2017

پاک-بھارت-افغانستان: ایک سیاسی بھنور


تحریر و تخلیص :  اسرار حسن
تاریخ: ٢٤ اگست ٢٠١٧

پاکستان کے داخلی حالات نے ستر (٧٠) سال بعد  ٢٨ جولائی ٢٠١٧ کو ایک کروٹ لی ہے-  ملک کی تاریخ میں  پہلی بار ایک منتخب لیکن  کرپٹ وزیر اعظم کو اسے سپریم کورٹ نے دستور پاکستان کی خلاف ورزی پر  وزارت عظمیٰ کا نا اہل قرار  دے دیا ہے- وفاقی پارلیمان میں صرف  وزیر اعظم  کی تبدیلی عمل میں آئی ہے- پورا پارلیمان اور وفاقی کابینہ کسی نہ کسی  کرپشن میں ملوث ہونے کے با وجود  اپنی سابقہ پوزیشن میں برقرار ہے-  باور کیا جاتا  ہے کہ اس ادھورے لیپا پوتی سے موجودہ وفاقی اور صوبائی انتظامیہ کی بے راہ روی اور کرپشن پر اسکا کوئی مثبت  اثر نہیں ہوگا- حالیہ خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ نواز لیگ پارلیمان میں اپنی اکثریت کے بل بوتے پر دستور میں ایسے شقوں کو کالعدم کرنے کی کوشش کر رہی ہے جن سے آیندہ نواز پارٹی کو  نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو سکتا ہے- ملک کے داخلی حالا ت میں سدھار  کے لئے قانون ساز اداروں کا کم از کم ایک  سے دو  دہائی تک سنجیدہ اور مخلص ہونا ضروری ہے-  مشکل یہ ہے کہ قانون ساز پارلیمان اور اداروں کی  ابتداء  ہی سے  ان خطوط  پر ٹریننگ نہیں ہوئی ہے- قومی سوچ بلکل بدل چکی ہے- حب الوطنی کی جگہ صوبائییت  نے لے رکھی  ہے- ھر صوبہ صوبائی پارٹی کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے- پنجاب کو وفاقی اور صوبا ئی  پارلیمان کے علاوہ فوج میں بھی برتری حاصل ہے-
گزشتہ ستر سالہ پاکستان کی کارکردگی یہ ثابت کرتی ہے کہ اجتماعی طور پر پاکستان انحطاط پذیر رہا ہے-  پانی، پاور، بجلی، گیس، علاج و معالجہ اور تعلیم  کافقدان پاکستان میں  ابتداء ہی سے قایم و دایم  ہے- پاکستان کی ساٹھ فیصد آبادی دیہی ہے اور کاشتکاری انکا پیشہ ہے- پھر بھی پاکستان اجناس اور غلّہ کی پیداوار میں خود کفیل نہیں ہے-  جاگیرداری نظام نے ملک بھر میں  پیداواری زمین کو بانٹ کر بنجر بنا رکھا ہے- لوٹ کھسوٹ سے جو کچھ بچتا ہے وہ سیلاب اور زلزلہ کی نظر ہو جاتا ہے- ٢٠٠ ملین کی آبادی میں صرف ١.٨ (ایک عشاریہ آٹھ) ملین آبادی ٹیکس دہندہ ہے- زمینداروں پر کوئی  ٹیکس نہیں- تعلیم کا تخمینہ صرف ٥٧ فیصد  پورے جنوبی اشیا میں سب سے کم ہے- پاکستان کی فوجی قوت، نیوکلیئر صلاحیت، اسکی بین الاقوامی (geo-strategic) محل و وقوع ، اور پڑوسی  ملکوں پر اسکا اثر و رسوخ یہ سب بےاثر اور بیکار ہو جاتے ہیں اگر اسکی معاشی حالت زبوں حال، تعلیم کا فقدان، اور ملک کی نو جوان آبادی بے روز گار ہو- ١٩٩٠ کے بعد پاکستان میں معاشی اور سماجی ترقی و اصلاحات کے جانب کوئی  کوشش نہیں کی گئی- ملک کا صاھب ثروت طبقہ  نہ تو کوئی  ٹیکس دیتا ہے نہ ہی ملک کی انڈسٹریز اور زراعت کو جدید بنانے کے لئے کوئی  انویسٹمنٹ کرتا ہے-
پاکستان  گزشتہ بیس سال سے IMF کے قرض پروگراموں پر عمل پیرا ہے- لیکن IMF کے متعین کردہ اصلاحات پر حکومت وقت نے کبھی عمل نہیں کیا- دیگر یوروپی ممالک نے پاکستان کو کثیر رقم وقتاً فوقتاً فراہم کیا لیکن پاکستان نے کبھی بھی انکے متعین کردہ پروگرام پر عمل در آمد نہیں کیا- ٢٠٠١ء  سے  ٢٠١٠ء  کے دوران امریکا نے کل  ٢٠ء٥  (20.5) بلین ڈالر پاکستان کو دیا- جرمنی، برطانیہ، جاپان کے علاوہ world bank اور Asian Development Bank  نے کل ملا کر  ١٠ ء ٥ بلین کی امداد پاکستان کو دیا- امریکا نے ٢٠٠٥ء اور ٢٠١٠ء میں بھی سخاوت کا مظاہرہ کیا جب پاکستان کے شمال مغرب میں زلزلہ اور سیلاب نے ملک کے ہمہ جہتی  (infrastructure) سہولتوں اور installations کو تباہ کر دیا تھا-  لیکن پاکستان کو بیرونی ملکوں اور اداروں سے کثیر رقم امداد میں ملنے کے باوجود اسکی معاشی ترقی اور سماجی خوشحالی پر کویی اثر نہ پڑا-
پاکستان سا ری دنیا میں دہشت گردی کی آماجگاہ سمجھا جاتا ہے جہاں طبقاتی، نسلی، مذہبی، اور ھر قسم کی گروہی منافرت پائی جاتی ہے-  اس صورت حال نے وسطی اشیا، افریقہ، مڈل ایسٹ کے دھشتگرد تنظیموں کے لئے پاکستان  ایک اچھی مارکیٹ میں تبدیل ہو چکا  ہے- تحریک طالبان پاکستان اور طالبان افغانستان کے علاوہ سپاہ صحابہ، جیش محممدی،  لشکر طیبہ، القاعدہ، اسلامک اسٹیٹ  وغیرہ وغیرہ  کی تنظیمیں یہاں سر گرم عمل ہیں-  داخلی حالا ت کا یہ ایک مختصر منظر نامہ ہے-
خارجی منظر نامہ کچھ زیادہ ہی تشویش ناک ہے-  پاکستان کے خارجی امور تیزی سے انحطاط  کا شکار ہیں-خارجی امور میں ابتری کا ایک بڑا سبب پاکستان کی ہندوستان دشمنی ہے جو کشمیر پر ہندوستان کے قابض ہونے سے شروع ہوئی-  دوسرا بڑا سبب سول انتظامیہ اور ملٹری انتظامیہ کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے  اور دونوں کے مقاصد کا ٹکراؤ ہے-  مثلا پاکستان ملٹری ابتداء  ہی سے ہندوستان دشمنی کے اصول پر گامزن ہے (جسکا واحد سبب مقبوضہ کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ ہے) جبکہ سول انتظامیہ بین الاقوامی حالا ت کے پیش نظر ہندوستان کے ساتھ پڑوسی ہونے کے ناتے تجارت اور باہمی تعلقات عامہ کو بہتر بنانے کی پالیسی پر گامزن ہے-
پاکستان کی خارجہ پالیسی  پاکستان کی داخلی امن و اما ن اور ملکی سلامتی کی ضامن نہیں  رہی ہے- بلکہ کبھی کبھی تو داخلی امن و امان اور ملکی سلامتی کے ذرایع کو پاکستان کی خارجہ قربان گاہ پر قربان کرنا پڑا ہے-   پاکستان کی سا ری توجہ اس بات پر مرکوز رہی ہے کہ افغانستان میں بڑھتی ہوئی ہندوستانی اثر و رسوخ کو کسطرح نفی کیا جا سکے- خارجہ پالیسی کا دوسرا جز  یہ رہا ہے کے افغانستان میں بھارت کو امریکی حمایت اور امریکی امداد سے کسطرح روک رکھا جائے-
کشمیر کے لائن اف کنٹرول پر جھڑپ کا سلسسلہ برسوں سے  جاری ہے- یہ ابھی ختم نہیں ہوا کہ مغربی سرحد پر دوسرا پڑوسی ملک افغانستان کے ساتھ جھڑپ  کی آنکھ مچولی ٩/١١ کے فورن بعد  شروع ہو گئی  ہے- پاکستان اور افغانستان دونوں ملکوں میں پشتون نسل کی مشترک آبادی ہونے کے سبب انکے تعلقات صدیوں سے قایم ہیں- اس تعلق میں انقلابی کیفیت اس وقت شروع ہوئی جب افغانستان میں سوویت روس کے تسلّط کو ختم کرنے کے لئے امریکا داخل ہوا اور پاکستان دو ساندھوں کی اس جنگ میں کود پڑا-
اسوقت سے لیکر آج تک افغان پالیسی  میں پاکستان تضادات کا شکار رہا ہے- پاکستان کابل میں دوبارہ طالبان حکومت کو دیکھنا نہیں چاہتا- وہ کابل میں ایک مخلوط پارٹی حکومت  کو دیکھنا چاہتا ہے- لیکن ساتھ ہی غیر پشتون ناد رن الائنس (Northern Alliance) کو دوبارہ پاور میں دیکھنا نہیں چاہتا- اور کابل کی حکومت پر بھارت کا بھی کوئی  اثر و رسوخ دیکھنا نہیں چاہتا- پاکستان کی یہ دونوں خواھشا ت  نا قابل عمل اس لئے ہیں  کہ غیر پشتون آبادی یہاں ٤٠% فیصد سے بھی زیادہ ہے جس میں تاجک. ازبک، اور ہزارہ نسل کے لوگ شامل ہیں-  بھارت کے ساتھ افغانستان کا تعلق پاکستان بننے کے پہلے سے رہا ہے- پاکستان افغانستان کی حکومت میں بھارت کا کوئی  رول دیکھنا نہیں چاہتا- ان خواہشات کو پورا کرنے کے لئے پاکستان افغانستان میں پاک-افغان طالبان اور دیگر جہادی تنظیموں کی دہشت گردی کو استمعال کرتا ہے- پاکستان کو یہ بھی خوف ہے کہ افغانستان اگر پشتون اور غیر پشتون میں تقسیم ہوا تو اسکا سب سے برا اثر پاکستان پر پڑیگا-
بھارت ایک عرصہ سے اس خطہ کا ایک معاشی پاور رہا ہے- اور افغانستان کی معاشی ترقی میں ایک اہم انویسٹر سمجھا جاتا ہے- ٢٠ جولائی ٢٠١١ء  کو سیکرٹری اف اسٹیٹ ھلیری کلینٹن نے بھارت کو مشورہ دیا کہ وہ اس خطہ میں زیادہ اہم رول ادا کر سکتا ہے- اس نے کہا:
“India’s leadership has the potential to positively shape the future of the Asia-Pacific.”                                                  
بھارت کے ساتھ امریکا کا یہ رومانس پاکستانی لیڈروں اور فوج کے لئے با عث تشویش تھا- اسی بات کو چھ سال بعد موجودہ امریکن صدر،  ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں امن و اما ن قایم کرنے کا کا م  بھارت کے ہاتھوں سونپنے کا عندیہ اپنے ٢٢ اگست  ٢٠١٧   کے پریس کانفرنس میں دیا ہے-
جس دن پاکستان وجود میں آیا اسی دن سے پاکستان اور بھارت کے درمیان  مسلہ کشمیر کو لیکر معاندانہ تعلقات جاری ہے اور بھارت کے ساتھ تین جنگوں کے باوجود "مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی"-  پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بنیاد ہی بھارت دشمنی سے شروع ہوئی- اور پاکستان کو نقشہ عالم سے مٹانے کی بھارتی  پالیسی برابر جاری ہے- مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے میں بھارتی کردار ہم سب کے سامنے ہے-  غرض  پاک و بھارت دونوں ممالک  ایک دوسرے کے ساتھ اپنی دشمنی کو کامیاب بنانے کے لئے بیرونی امداد اور بیرونی طاقتوں کا سہارا لیتے رہے ہیں-  موجودہ سیاست میں دونوں کی خارجہ پالیسی کو اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے- یہ منظر نامہ اس بات کی تصدق کرتا ہے کہ بھارت کو افغانستان کے معاملات سے الگ رکھنے کی پاکستان کوشش کسی طرح بھی قابل عمل نہیں ہے- بھارت افغانستان میں شروع ہی سے ایک معاشی پاور سمجھا جاتا ہے- شروع ہی میں بھارت افغانستان میں ١،٥ (1.5) بلین ڈالر لگا چکا تھا- افغانستان کے امدادی ممالک جن میں  امریکا ، یورپ اور جاپان شامل ہیں بھارت کو ایک قابل عتماد اور اہم donor سمجھتے ہیں-
دونوں غریب اور پسماندہ ملک ہونے کے باوجود دونوں نے اپنے ملک کو ایک دوسرے کے لئے  نیوکلیر  ملک بنا رکھا ہے-  پاکستان کی اندرونی اور بیرونی سیاست میں بھارت کی بڑھتا  ہوا  اثر و رسوخ کو روکنے یا کم کرنے کے لئے پاکستان کو امریکا کی مخالفت کے باوجود، افغان طالبان کی حمایت حاصل کرنی پڑی اور غیر سرکاری طور پر اسامہ بن لادن کو اپنے یہاں خفیہ پناہ دینا پڑا- افغانستان میں بھارت کی بڑھتی ہوئی اثر و رسوخ کی سدباب کے لئے طالبان کی مدد اور حمایت ضروری ہو گئی تھی- دوسرے بارک اوباما نے آتے ہی افغانستان سے امریکن انخلاء کے پروگرام پر عمل در آمد شروع کر دیا تھا- افغانستان میں امریکن انخلاء کو پر کرنے اور افغانستان میں بھارت کی بڑھتی ہوئی اثر و رسوخ کو روکنے کے لئے پاکستان کو طالبان اور دیگر جہادی تنظیموں کی حمایت ضروری ہو گئی تھی- روز بروز  طالبان اور جہادی تنظیموں کا امریکنوں پر حملہ اور انکے انخلاء میں روکاوٹوں نے امریکن انخلاء  کو ناکا م  بنا رکھا تھا- امریکن انخلاء اسوقت تک ممکن نہیں جب تک افغانستان میں امن و امان قایم نہیں ہوتا-
 بار بار امریکی تنبیہ کے باوجود پاکستان طالبان اور جہادی تنظیموں کی پشت پناہی سے دست بردار ہونے سے معذور رہا- بالآخر موجودہ امریکن صدر،  ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں امن و اما ن قایم کرنے کا کا م  بھارت کے ہاتھوں سونپنے کا عندیہ اپنے ٢٢ اگست کے پریس کانفرنس میں دیا ہے- یہ پاکستان کے لئے تشویش کا  باعث ہے-
مسلہ افغانستان پر پاکستان ملٹری کا سب سے اہم موقف یہ ہے کہ امریکی انخلاء کے بعد افغانستان کی صورت گری میں بھارت کا کویی نمایا ں مقام حاصل نہ کر سکے- لیکن کابل میں بھارت کا امدادی اور اصلاحی رول ١٩٤٧ سے ہی جاری ہے، جسے پاکستان نظر انداز نہیں کر سکتا- مثلن پاکستان نے افغانستان کے لئے بھارتی امدادی اور تجارتی ساز و سامان کی ترسیل کو ٩/١١ کے بعد بند کر دیا تھا- بھارت نے پاکستان کی سر زمین کو با ئی پاسس کرتے ہوۓ ایران کی سر زمین کا متبادل راستہ ڈھونڈ نکالا- بھارت نے ١٥٠ ملین ڈالر خرچ کر کے افغانستان کے شہر دلآرام سے ایرانی شہر زارنج تک ایک روڈ تعمیر کرڈالا جس نے ایرانی پورٹ چا بہار تک کی رسایی کو ممکن بنا دیا- جنوری ٢٠٠٩ سے یہ روڈ مکمّل فنکشنل ہونے کے بعد افغانستان، ایران اور ہندوستان کا سارا امپورٹ ایکسپورٹ چا بہار کے پورٹ  سے ہونے لگا- اس پورٹ سے قبل افغانستان کی سا ری در آمد اور بر آمد کا واحد ذریعہ کراچی پورٹ تھا-  کراچی پورٹ پر تاخیری حربہ اور دیگر پریشانی سے افغانی نالاں تھے اور برسوں سے متبادل پورٹ  کی تلاش میں تھے-
  تیزی سے بگڑتی ہوئی بین الاقوامی الجھاؤ میں پاکستان کو لا محالہ دوغلی پالیسی پر عمل دار آمد کرنا  پڑ  رہا ہے-  حالت اس نہج کو پہنچ چکے ہیں کہ پڑوسی ممالک جن میں بھارت، افغانستان، ایران، اور وسطی  ایشیا میں روسی فیڈریشن کے ممالک پاکستان کا اعتماد کھو تے جا رہے ہیں- یہ کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی-  ملک کی داخلی اتحاد  مختلف قسم کی تفرقہ بندییوں  کا شکار ہو چکی ہے- مذہبی، سیاسی، نسلی، قبایلی اور صوبائی فرقہ واریت نے قوم، ملک اور پاکستانی معاشرہ کو بری طرح متاثر کر رکھا ہے- ملک کے چاروں صوبے چار قومیتوں (سندھی، پنجابی، بلوچ اور پختون) میں منقسم ہیں- FATA جسے اردو میں  فاقی منتظم شدہ قبائیلی علاقہجات)کہا جاتا ہے یہ پاکستان کے شمال-مغرب میں سات (٧) عدد قبائلی ایجینسیوں اور چھ (٦) عدد سرحدی علاقوں پر مشتمل ہے- انکی حیثیت نیم آزادانہ ہے- پاکستان کی وفاقی حکومت عہد برطانیہ کے قانون “Frontier Crimes  Regulations” کے تحت انکا نظم و نسق دیکھتی رہی ہے- اسکی سرحدیں ایک طرف بلوچستان اور پختونخواہ اور دوسری طرف افغانستان سے ملتی ہیں - اسکی کل آبادی پشتون نسل پر مشتمل ہے-  پاکستان میں پشتون نسل کے لوگ  پختونخواہ میں صد فیصد  اور افغانستان میں ساٹھ (٦٠) فیصد پشتون  نسل کے لوگ آباد ھیں-  FATA کا تقریباً سارا علاقہ پاکستانی، افغانی اور دیگر  ملکوں کے دہشت گرد  تنظیموں کا آماجگاہ  بن چکا ہے کیونکہ عملی طور پر یہاں قبائیلی نظام را یج ہے-  ٢٠٠٨ء میں پریذیڈنٹ زرداری نے فاٹا کی سٹیٹس (status) کو تبدیل کرنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن اگست ٢٠١١ میں وہ صرف سیاسی پارٹیوں کو فاٹا میں اپنا کھیل  کھیلنے کی اجازت دےسکے اور فرنٹیئر کے برٹش پینل کوڈ میں متعلقہ تبدیلی کر سکے- مجموعی  طور پر  اسکی حیثیت آج بھی وہی ہے جو برطانوی حکومت کے دور میں تھی- آج بھی وہ بغیر کسی پارلیمان کے اور بغیر کسی نمایندگی کے فیڈرل گورنمنٹ کی نگرانی میں ہے-
اب سب سے بڑا سوال ہمارے سامنے یہ ہے کہ پاکستانی عوام ان حالت میں کیا کریں – سول انتظامیہ اور فوج بری طرح ایک بھنور میں پھنس چکی ہے- پاک، بھارت اور افغانستان تینوں پڑوسی ممالک ہیں- یہ گزشتہ صدیوں سے ہیں اور آیندہ صدیوں ساتھ ہونگے- امریکا. یورپ، جاپان، اور دیگر امدادی ممالک دیر سویر چلے جاینگے- لیکن اوپر کے تینوں پڑوسی ممالک کو ہمیشہ ہمیشہ ساتھ رہنا ہے- ایسی حالت میں پاکستانی عوام کے سامنے جو چوائس ہیں وہ محدود ہیں اور خطرے سے خالی نہیں- پاکستان کے عوام میں اور عوامی نمایندوں میں بے پناہ صلاحیتیں موجود ہیں- وہ ان تمام مسائل کو بخوبی  حل کر سکتے ہیں- لیکن مشکل یہ در پیش ہے کوئی مسلہ بغیر ذاتی مفاد کی قربانی کے حل نہیں ہوتا- اور یہی جنس عوام اور عوامی نمایندوں کے پاس فروخت کے لئے نہیں ہے-  اگر یہ پہلے سے موجود ہوتا تو آج یہ مسایل پیدا ہی نہ ہوتے- الله نگہبان-
= X =
                              

Saturday, August 5, 2017

کشمیر: ایک تاریخی ناسور (قسط – ٣)


تخلیص و تحریر:  اسرار حسن
تاریخ:  ٥ اگست ٢٠١٧

با وجودکے نہرو نے ایٹلی (Attlee) کو جو کچھ کہا تھا، اسکے باوجود اس نے کشمیر کے پرائم منسٹر مہاجن کو خط لکھ کر اسے قائد اعظم سے ملنے اور کشمیر میں خانہ جنگی کی صورت حال پر بات کرنے سے منع  کیا-   نہرو نے مہاجن کو لکھتے ہوۓ کہا، "میں نہیں سمجھتا کہ آپکو لاہور جا کر مسٹر جناح سے ملنے کی کوئی ضرورت ہے-  ہمارا موقف بلکل clear ہے اور اس میں کسی بحث مبا حثہ  کی گنجایش نہیں ہے-  یہ بات بلکل کلیر  ہے کہ کشمیر میں امن و امان کی بحالی تک کوئی استصواب راۓ ممکن نہیں ہے اور امن و اما ن کی صورت حال آیندہ  چند مہینوں تک ممکن نظر نہیں آتی ہے- " (١ ( نہرو نے شیخ عبدللہ کو بھی پاکستان جانے اور جناح سے ملنے کے لئے منع  کیا-  [٢]
مہاتما گاندھی سے جب لوگوں نے پوچھا کہ "کیا وہ اہنسا (غیر تشدد) پر اپنا  اعتماد کھو چکے ہیں اور کشمیر میں ہندوستانی افواج کی موجودگی کو وہ صحیح سمجھتے ہیں؟" تو انہوں نے کہا "میری کوئی حیثیت نہیں ہے- میرا کہا کوئی نہیں سنتا- میں نے اپنی سر براہی میں ایک 'شانتی سینا' لیکر پاکستان جانے کی پیش کش کی لیکن نہرو کی حکومت نے اپنی رضا منڈی دینے سے انکار کر دیا-" [٣]
نہرو نے اپنے ایک تجربہ کا ر اور ماہر سکھ  جنرل کلونت سنگھ کو کشمیر بھیجا کہ وہ وہاں سا رے ہندوستانی افواج کی کمان اپنے ہاتھوں میں لیکر بارہ مولا سے سا رے غیر ملکی باغیوں کو نکا ل باہر  کریں  اور جہلم روڈ سے کوہالہ تک کا علاقہ اپنے ہاتھوں میں لیکر وہاں مکمّل امن و امن قایم کریں -
١١ نومبر کو نہرو بذات خود سرینگر پہنچے- وہاں ہندوستانی افواج اور کشمیری عوام کو سراہتے ہوۓ کہا "مجھے کشمیری عوام پر فخر ہے کہ انہوں نے کشمیر کو ڈوبنے سے بچا لیا اور اپنے مادرے وطن ہندوستان کی عزت و وقار کو بچا  لیا"-[٤]   کشمیر میں موجودگی کے دوران نہرو کو یہ بھی پتہ چلا کہ ٥ نومبر کو پانچ ھزار (٥٠٠٠) جموں کے مسلمانوں کو انکے گھروں سے نکا ل کر، ٹرکوں میں بٹھا کر جموں سے نکال باھر کیا گیا-  جوں  ہی وہ کشمیر  کی سرحد سے باھر نکلے انھیں پنجاب کے راشٹریہ سیوک سنگھ  (RSS) کے غنڈوں نے اپنے بندوقوں کا نشانہ بنا ڈالا-
Attlee نے نومبر میں دو بارہ  نہرو کو یہ کہتے ہوۓ ٹیلیگرام کیا کہ اسکے خیال میں کشمیر مسلہ کا ایک فوری اور بہتر حال یہ ہے کہ کشمیری عوام کی مرضی جاننے کے لئے بین الاقوامی کورٹ اف جسٹس کی خدمات حاصل کی جائے-  نہرو نے جواب دیتے ہوۓ کہا- "کشمیر سے متعلق اپکا پیغام ملا-  میں مشکور ھوں- لیکن میں نہیں سمجھتا کہ بین الاقوامی کورٹ آف جسٹس اس معاملہ کے لئے صحیح ذریع ثابت ہوگی-" [٥ ]
نہرو کسی قیمت کشمیر کو کھونا نہیں چاہتے تھے-  نہرو کو ایک بڑا شاک اس وقت لگا جب ما ؤنٹ بیٹن نے نہرو کو یہ بتایا کہ خود اںکا  ایک ساتھی 'سری پرکا سہ'  (Sri Prakasa) جو اسوقت پاکستان میں ہندوستان کا سفیر متعین تھے  وہ کشمیر کو پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے پر رضا مند تھے - نہرو نے پرکا سہ سے باز پرس کرتے ہوۓ کہا-  "مجھے سخت تعجب ہوا جب ما ونٹ بیٹن  نے کشمیر سے متعلق تمہارے خیالات بتا ۓ کہ ھر جانب امن و امان کا واحد راستہ کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے میں ہے"-[٦]  کشمیر کی لمبی جنگ کا اثر ہندوستان کی مسلسل گرتی ہوئی معاشی حالت پر پڑنا  شروع ہوا تو ہندوستان کے عوام گاندھی جی کے پاس اپنی اپیل لیکر آنے لگے-  ٢٥  دسمبر  کو گاندھی جی نے کشمیر کی جنگ کا ایک حل پیش کیا- "کیا ہم خود اس قابل نہیں کہ خود بیٹھ کر اس مسلہ کا حل تلاش کریں؟  ھر کسی کو اپنی غلطی تسلیم کرنی چاہیے-  میرا مشورہ ہے کہ ہندوستان اور پاکستان خود ایک جگہ مل بیٹھیں اور اسکو حل کریں-  مہاراجہ کشمیر اس میں پارٹی نہ بنیں-  اگر  ہند و پاکستان ایک ثا لثی چاہتے ہیں  تو کسی ایک کو اپنی رضا منڈی سے مقرّر کر سکتے ہیں[٧] -
کشمیر کے مسلہ کو حل کرنے کی یہ مہاتما گاندھی کی آخری کوشش تھی جس میں انہوں نے خود کو  ثالثی  کا رول ادا کرنے کی پیش کش کی تھی-  اسکے عوض انھیں اپنے ساتھیوں سے الفاظ تشککر  کے بجاۓ انکی ناراضگی کا تحفہ ملا-  "مجھے کشمیر کے معاملہ میں بولنے پر شکریہ کے بجاے سخت تنبیہ کی گئی ہے-"  مہاتما نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا -"  اگر شیخ عبدللہ اقلیت کو اکثریت کشمیریوں کے ساتھ لیکر نہیں چل سکتے تو کشمیر کو صرف فوجی طاقت کے بل بوتے پر نہیں بچایا جا سکتا ہے"[٨]-  کشمیر کے ہندو پنڈتوں کی اکثریت شیخ عبداللہ پر اپنا   اعتماد  کھو چکی تھی اور پنڈت نہرو کو کشمیر کی وزارت اعلی پر شیخ عبدللہ کی جگہ کسی کشمیری پنڈت کو مقرّر کرنے کے لئے بضد تھے-  اس وقت اگر پنڈت نہرو مہاتما گاندھی کی کشمیر قضیہ پر  ہند و پاکستان کے درمیان ثا لثی کی پیش کش کو مان  لیتے تو  بعد میں تین جنگوں اور تقریباً پچاس ہزار کشمیری جانوں کے ضیا ع سے بچ جاتے-  مہاتما گاندھی کی ان کوششوں کا نتیجہ مثبت کے بجا ۓ منفی ہوتا گیا اور ناراض ہندو طبقہ گاندھی جی کو محمّد گاندھی کا نام دینے لگے-  بلآخر ٣٠ جنوری ١٩٤٨ بروز جمع ایک ہندو برہمن ناتھو رام گوڈسے نے مہاتما کے سینہ پر تین گولیاں داغ کر اہنسا کے پوجاری کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاموش کر دیا-  اور اسکے ساتھ ہی کشمیر قضیہ کی کوشش بھی ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کی کوشش کی گئی –
لیکن کشمیر کی جنگ برابر  رہی اور روزانہ سیکڑوں کی تعداد میں لوگ ہندوستانی فوج کے ہاتھوں مرتے رہے اور زخمی ہوتے رہے-  ہندوستان کے کئی یک  سنجیدہ صفت لیڈر اس متعلق  متفککر تھے-  ان میں ایک چکرورتی راج گوپال اچاریہ تھے  جو اندنوں مغربی بنگال کے پہلے گورنر تھے-  وہ کشمیر میں نہرو کی جانب سے ہندوستان کی بیش بہا ء  ذرایع کا بے دریغ ضیاع بلکل پسند نہ تھا-  چند مہینوں بعد جب نہرو نے چکرورتی راج گوپال اچاریہ کو ہندوستان میں ماؤنٹ بیٹن کی جگہ لینے کی درخواست کی تو چکرورتی نے نہرو کو دبے لفظوں میں مشورہ دیا  کہ وہ خود ہندوستان کے پہلے گورنر جنرل اینڈ ولبھ بھائی پٹیل وزیر اعظم  مقرر ھوں-  نہرو نے فورن یہ مشورہ رد کر دیا-
نہرو اکثر تنہائی میں ہندوستان کی جنگ آزادی پر غور کرتے تھے-  ماؤنٹ بیٹن کو الوادع  کرتے ہوۓ انہوں نے کہا: "ہو سکتا ہے کہ ہملوگوں نے غلطیاں کی ھوں—آپ نے اور میں نے—لیکن مجھے یقین ہے کہ ہملوگوں نے جو کچھ کیا وہ ہندوستان کے لئے صحیح سمجھ کر کیا-"[٩]
مزید نہرو نے اپنا دل کھولتے ہوۓ اپنے جگری مسلمان دوست، نواب بھوپال کو آزادی کے چند ہفتوں بعد ان کو لکھتے ھوۓ کہا: ان الفاظ کو نہرو ہی کی زبان میں کہنا بہتر ہوگا- مندرجہ پورا متن خود اپنی تشریح ہے- 

"It has been our misfortune … the misfortune of India and Pakistan, that evil impulses triumphed …. I have spent the greater part of my adult life in pursuing and trying to realize certain ideals …. Can you imagine the sorrow that confronts me when I see after more than thirty years of incessant effort the failure of must that I longed for passionately?....I  know that we have been to blame in many matters…. Partitition came and we accepted it because we thought that perhaps that way, however painful it was, we might have some peace… Perhaps we acted wrongly.  It is difficult to judge now.  And yet, the consequences of that partition have been so terrible that one is inclined to think that anything else would have been preferable …All my sense of history rebels against this unnatural state of affairs that has been created in India and Pakistan… There is no settling down to it and conflicts continue.  Perhaps these conflicts are due to the folly or littleness of those in authority in India and Pakistan…. Ultimately I have no doubt that India and Pakistan will come close together…. Some kind of federal link… There is no other way to peace. The alternative is ….war.” [10].





References:
1.       Nehru to Mahajan,30 Oct.1947, SWJN(2), 4, pp.292-93.  
2.       Nehru  to Sheikh Abdullah, 1st Nov.1947, ibid. p.300.
3.       Gandhi prayer meeting 5 Nov.1947, CWMG, 89, pp.480-81.
4.       Nehru to Shk.Abdullah, 4 Nov. 1947 SWJN(2), 4, pp.318-19
5.       Nehru to Attlee, 23 Nov. 1947, ibid. pp.338-39.
6.       Nehru to Sri Prakasa 25 Nov. 1947, ibid. pp.346-47.
7.       Gandhi Prayer Meeting speech 25 Dec.1947, ibid. p.298.
8.       Gandhi Prayer Speech 29 Dec. 1947, ibid. pp.318-19.
9.       Nehru speech to Mountbatten 20 Jun. 1948, ibid. pp.358-60.
10.     Nehru to Nawab of Bhopal, 9 July 1948, ibid. pp.5-6.

SWJN = Selected Works of Jawaharlal Nehru.
CWMG = Collected Works of Mahatma Gandhi.