تحریر و تخلیص : اسرار حسن
تاریخ: ٢٤ اگست ٢٠١٧
پاکستان کے داخلی حالات نے ستر (٧٠) سال بعد
٢٨
جولائی ٢٠١٧ کو ایک کروٹ لی ہے- ملک کی
تاریخ میں پہلی بار ایک منتخب لیکن کرپٹ وزیر اعظم کو اسے سپریم کورٹ نے دستور پاکستان
کی خلاف ورزی پر وزارت عظمیٰ کا نا اہل
قرار دے دیا ہے- وفاقی پارلیمان میں صرف وزیر اعظم
کی تبدیلی عمل میں آئی ہے- پورا پارلیمان اور وفاقی کابینہ کسی نہ کسی کرپشن میں ملوث ہونے کے با وجود اپنی سابقہ پوزیشن میں برقرار ہے- باور کیا جاتا ہے کہ اس ادھورے لیپا پوتی سے موجودہ وفاقی اور
صوبائی انتظامیہ کی بے راہ روی اور کرپشن پر اسکا کوئی مثبت اثر نہیں ہوگا- حالیہ خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ
نواز لیگ پارلیمان میں اپنی اکثریت کے بل بوتے پر دستور میں ایسے شقوں کو کالعدم
کرنے کی کوشش کر رہی ہے جن سے آیندہ نواز پارٹی کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو سکتا ہے- ملک کے
داخلی حالا ت میں سدھار کے لئے قانون ساز
اداروں کا کم از کم ایک سے دو دہائی تک سنجیدہ اور مخلص ہونا ضروری ہے- مشکل یہ ہے کہ قانون ساز پارلیمان اور اداروں
کی ابتداء ہی سے ان
خطوط پر ٹریننگ نہیں ہوئی ہے- قومی سوچ
بلکل بدل چکی ہے- حب الوطنی کی جگہ صوبائییت نے لے رکھی ہے- ھر صوبہ صوبائی پارٹی کے ہاتھوں میں کھیل
رہا ہے- پنجاب کو وفاقی اور صوبا ئی
پارلیمان کے علاوہ فوج میں بھی برتری حاصل ہے-
گزشتہ ستر سالہ پاکستان کی کارکردگی یہ ثابت کرتی ہے کہ
اجتماعی طور پر پاکستان انحطاط پذیر رہا ہے-
پانی، پاور، بجلی، گیس، علاج و معالجہ اور تعلیم کافقدان پاکستان میں ابتداء ہی سے قایم و دایم ہے- پاکستان کی ساٹھ فیصد آبادی دیہی ہے اور
کاشتکاری انکا پیشہ ہے- پھر بھی پاکستان اجناس اور غلّہ کی پیداوار میں خود کفیل
نہیں ہے- جاگیرداری نظام نے ملک بھر
میں پیداواری زمین کو بانٹ کر بنجر بنا
رکھا ہے- لوٹ کھسوٹ سے جو کچھ بچتا ہے وہ سیلاب اور زلزلہ کی نظر ہو جاتا ہے- ٢٠٠
ملین کی آبادی میں صرف ١.٨ (ایک عشاریہ آٹھ) ملین آبادی ٹیکس دہندہ ہے- زمینداروں
پر کوئی ٹیکس نہیں- تعلیم کا تخمینہ صرف
٥٧ فیصد پورے جنوبی اشیا میں سب سے کم ہے-
پاکستان کی فوجی قوت، نیوکلیئر صلاحیت، اسکی بین الاقوامی (geo-strategic) محل و وقوع ، اور پڑوسی ملکوں پر اسکا اثر و رسوخ یہ سب بےاثر اور بیکار
ہو جاتے ہیں اگر اسکی معاشی حالت زبوں حال، تعلیم کا فقدان، اور ملک کی نو جوان
آبادی بے روز گار ہو- ١٩٩٠ کے بعد پاکستان میں معاشی اور سماجی ترقی و اصلاحات کے
جانب کوئی کوشش نہیں کی گئی- ملک کا صاھب
ثروت طبقہ نہ تو کوئی ٹیکس دیتا ہے نہ ہی ملک کی انڈسٹریز اور زراعت
کو جدید بنانے کے لئے کوئی انویسٹمنٹ کرتا
ہے-
پاکستان گزشتہ بیس
سال سے IMF کے قرض پروگراموں پر عمل پیرا ہے- لیکن IMF کے متعین کردہ اصلاحات پر
حکومت وقت نے کبھی عمل نہیں کیا- دیگر یوروپی ممالک نے پاکستان کو کثیر رقم وقتاً
فوقتاً فراہم کیا لیکن پاکستان نے کبھی بھی انکے متعین کردہ پروگرام پر عمل در آمد
نہیں کیا- ٢٠٠١ء سے ٢٠١٠ء
کے دوران امریکا نے کل ٢٠ء٥ (20.5) بلین ڈالر پاکستان کو دیا- جرمنی،
برطانیہ، جاپان کے علاوہ world bank اور Asian Development
Bank نے کل ملا کر ١٠ ء ٥ بلین کی امداد پاکستان کو دیا- امریکا نے
٢٠٠٥ء اور ٢٠١٠ء میں بھی سخاوت کا مظاہرہ کیا جب پاکستان کے شمال مغرب میں زلزلہ
اور سیلاب نے ملک کے ہمہ جہتی (infrastructure)
سہولتوں اور installations کو تباہ کر دیا تھا- لیکن پاکستان کو بیرونی ملکوں اور اداروں سے
کثیر رقم امداد میں ملنے کے باوجود اسکی معاشی ترقی اور سماجی خوشحالی پر کویی اثر
نہ پڑا-
پاکستان سا ری دنیا میں دہشت گردی کی آماجگاہ سمجھا جاتا ہے
جہاں طبقاتی، نسلی، مذہبی، اور ھر قسم کی گروہی منافرت پائی جاتی ہے- اس صورت حال نے وسطی اشیا، افریقہ، مڈل ایسٹ کے
دھشتگرد تنظیموں کے لئے پاکستان ایک اچھی
مارکیٹ میں تبدیل ہو چکا ہے- تحریک طالبان
پاکستان اور طالبان افغانستان کے علاوہ سپاہ صحابہ، جیش محممدی، لشکر طیبہ، القاعدہ، اسلامک اسٹیٹ وغیرہ وغیرہ کی تنظیمیں یہاں سر گرم عمل ہیں- داخلی حالا ت کا یہ ایک مختصر منظر نامہ ہے-
خارجی منظر نامہ کچھ زیادہ ہی تشویش ناک ہے- پاکستان کے خارجی امور تیزی سے انحطاط کا شکار ہیں-خارجی امور میں ابتری کا ایک بڑا
سبب پاکستان کی ہندوستان دشمنی ہے جو کشمیر پر ہندوستان کے قابض ہونے سے شروع
ہوئی- دوسرا بڑا سبب سول انتظامیہ اور
ملٹری انتظامیہ کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے
اور دونوں کے مقاصد کا ٹکراؤ ہے-
مثلا پاکستان ملٹری ابتداء ہی سے
ہندوستان دشمنی کے اصول پر گامزن ہے (جسکا واحد سبب مقبوضہ کشمیر پر بھارت کا
غاصبانہ قبضہ ہے) جبکہ سول انتظامیہ بین الاقوامی حالا ت کے پیش نظر ہندوستان کے
ساتھ پڑوسی ہونے کے ناتے تجارت اور باہمی تعلقات عامہ کو بہتر بنانے کی پالیسی پر
گامزن ہے-
پاکستان کی خارجہ پالیسی
پاکستان کی داخلی امن و اما ن اور ملکی سلامتی کی ضامن نہیں رہی ہے- بلکہ کبھی کبھی تو داخلی امن و امان
اور ملکی سلامتی کے ذرایع کو پاکستان کی خارجہ قربان گاہ پر قربان کرنا پڑا ہے- پاکستان کی سا ری توجہ اس بات پر مرکوز رہی ہے
کہ افغانستان میں بڑھتی ہوئی ہندوستانی اثر و رسوخ کو کسطرح نفی کیا جا سکے- خارجہ
پالیسی کا دوسرا جز یہ رہا ہے کے افغانستان
میں بھارت کو امریکی حمایت اور امریکی امداد سے کسطرح روک رکھا جائے-
کشمیر کے لائن اف کنٹرول پر جھڑپ کا سلسسلہ برسوں سے جاری ہے- یہ ابھی ختم نہیں ہوا کہ مغربی سرحد پر
دوسرا پڑوسی ملک افغانستان کے ساتھ جھڑپ کی آنکھ مچولی ٩/١١ کے فورن بعد شروع ہو گئی ہے- پاکستان اور افغانستان دونوں ملکوں میں
پشتون نسل کی مشترک آبادی ہونے کے سبب انکے تعلقات صدیوں سے قایم ہیں- اس تعلق میں
انقلابی کیفیت اس وقت شروع ہوئی جب افغانستان میں سوویت روس کے تسلّط کو ختم کرنے
کے لئے امریکا داخل ہوا اور پاکستان دو ساندھوں کی اس جنگ میں کود پڑا-
اسوقت سے لیکر آج تک افغان پالیسی میں پاکستان تضادات کا شکار رہا ہے- پاکستان
کابل میں دوبارہ طالبان حکومت کو دیکھنا نہیں چاہتا- وہ کابل میں ایک مخلوط پارٹی
حکومت کو دیکھنا چاہتا ہے- لیکن ساتھ ہی غیر
پشتون ناد رن الائنس (Northern Alliance) کو دوبارہ پاور میں دیکھنا نہیں چاہتا- اور کابل کی
حکومت پر بھارت کا بھی کوئی اثر و رسوخ
دیکھنا نہیں چاہتا- پاکستان کی یہ دونوں خواھشا ت نا قابل عمل اس لئے ہیں کہ غیر پشتون آبادی یہاں ٤٠% فیصد سے بھی زیادہ ہے
جس میں تاجک. ازبک، اور ہزارہ نسل کے لوگ شامل ہیں- بھارت کے ساتھ افغانستان کا تعلق پاکستان بننے
کے پہلے سے رہا ہے- پاکستان افغانستان کی حکومت میں بھارت کا کوئی رول دیکھنا نہیں چاہتا- ان خواہشات کو پورا کرنے
کے لئے پاکستان افغانستان میں پاک-افغان طالبان اور دیگر جہادی تنظیموں کی دہشت
گردی کو استمعال کرتا ہے- پاکستان کو یہ بھی خوف ہے کہ افغانستان اگر پشتون اور
غیر پشتون میں تقسیم ہوا تو اسکا سب سے برا اثر پاکستان پر پڑیگا-
بھارت ایک عرصہ سے اس خطہ کا ایک معاشی پاور رہا ہے- اور
افغانستان کی معاشی ترقی میں ایک اہم انویسٹر سمجھا جاتا ہے- ٢٠ جولائی ٢٠١١ء کو سیکرٹری اف اسٹیٹ ھلیری کلینٹن نے بھارت کو
مشورہ دیا کہ وہ اس خطہ میں زیادہ اہم رول ادا کر سکتا ہے- اس نے کہا:
“India’s leadership has the potential to positively shape
the future of the Asia-Pacific.”
بھارت کے ساتھ امریکا کا یہ رومانس پاکستانی لیڈروں اور فوج
کے لئے با عث تشویش تھا- اسی بات کو چھ سال بعد موجودہ امریکن صدر، ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں امن و اما ن قایم
کرنے کا کا م بھارت کے ہاتھوں سونپنے کا
عندیہ اپنے ٢٢ اگست ٢٠١٧ کے پریس کانفرنس میں دیا ہے-
جس دن پاکستان وجود میں آیا اسی دن سے پاکستان اور بھارت کے
درمیان مسلہ کشمیر کو لیکر معاندانہ تعلقات
جاری ہے اور بھارت کے ساتھ تین جنگوں کے باوجود "مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا
کی"- پاکستان کی خارجہ پالیسی کی
بنیاد ہی بھارت دشمنی سے شروع ہوئی- اور پاکستان کو نقشہ عالم سے مٹانے کی
بھارتی پالیسی برابر جاری ہے- مشرقی
پاکستان کو علیحدہ کرنے میں بھارتی کردار ہم سب کے سامنے ہے- غرض پاک
و بھارت دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ
اپنی دشمنی کو کامیاب بنانے کے لئے بیرونی امداد اور بیرونی طاقتوں کا سہارا لیتے
رہے ہیں- موجودہ سیاست میں دونوں کی خارجہ
پالیسی کو اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے- یہ منظر نامہ اس بات کی تصدق کرتا ہے
کہ بھارت کو افغانستان کے معاملات سے الگ رکھنے کی پاکستان کوشش کسی طرح بھی قابل
عمل نہیں ہے- بھارت افغانستان میں شروع ہی سے ایک معاشی پاور سمجھا جاتا ہے- شروع
ہی میں بھارت افغانستان میں ١،٥ (1.5) بلین ڈالر لگا چکا تھا- افغانستان کے امدادی
ممالک جن میں امریکا ، یورپ اور جاپان
شامل ہیں بھارت کو ایک قابل عتماد اور اہم donor سمجھتے ہیں-
دونوں غریب اور پسماندہ ملک ہونے کے باوجود دونوں نے اپنے
ملک کو ایک دوسرے کے لئے نیوکلیر ملک بنا رکھا ہے- پاکستان کی اندرونی اور بیرونی سیاست میں بھارت
کی بڑھتا ہوا اثر و رسوخ کو روکنے یا کم کرنے کے لئے پاکستان
کو امریکا کی مخالفت کے باوجود، افغان طالبان کی حمایت حاصل کرنی پڑی اور غیر
سرکاری طور پر اسامہ بن لادن کو اپنے یہاں خفیہ پناہ دینا پڑا- افغانستان میں
بھارت کی بڑھتی ہوئی اثر و رسوخ کی سدباب کے لئے طالبان کی مدد اور حمایت ضروری ہو
گئی تھی- دوسرے بارک اوباما نے آتے ہی افغانستان سے امریکن انخلاء کے پروگرام پر
عمل در آمد شروع کر دیا تھا- افغانستان میں امریکن انخلاء کو پر کرنے اور
افغانستان میں بھارت کی بڑھتی ہوئی اثر و رسوخ کو روکنے کے لئے پاکستان کو طالبان
اور دیگر جہادی تنظیموں کی حمایت ضروری ہو گئی تھی- روز بروز طالبان اور جہادی تنظیموں کا امریکنوں پر حملہ
اور انکے انخلاء میں روکاوٹوں نے امریکن انخلاء
کو ناکا م بنا رکھا تھا- امریکن
انخلاء اسوقت تک ممکن نہیں جب تک افغانستان میں امن و امان قایم نہیں ہوتا-
بار بار امریکی تنبیہ
کے باوجود پاکستان طالبان اور جہادی تنظیموں کی پشت پناہی سے دست بردار ہونے سے معذور
رہا- بالآخر موجودہ امریکن صدر، ڈونلڈ
ٹرمپ نے افغانستان میں امن و اما ن قایم کرنے کا کا م بھارت کے ہاتھوں سونپنے کا عندیہ اپنے ٢٢ اگست
کے پریس کانفرنس میں دیا ہے- یہ پاکستان کے لئے تشویش کا باعث ہے-
مسلہ افغانستان پر پاکستان ملٹری کا سب سے اہم موقف یہ ہے
کہ امریکی انخلاء کے بعد افغانستان کی صورت گری میں بھارت کا کویی نمایا ں مقام
حاصل نہ کر سکے- لیکن کابل میں بھارت کا امدادی اور اصلاحی رول ١٩٤٧ سے ہی جاری
ہے، جسے پاکستان نظر انداز نہیں کر سکتا- مثلن پاکستان نے افغانستان کے لئے بھارتی
امدادی اور تجارتی ساز و سامان کی ترسیل کو ٩/١١ کے بعد بند کر دیا تھا- بھارت نے
پاکستان کی سر زمین کو با ئی پاسس کرتے ہوۓ ایران کی سر زمین کا متبادل راستہ
ڈھونڈ نکالا- بھارت نے ١٥٠ ملین ڈالر خرچ کر کے افغانستان کے شہر دلآرام سے ایرانی
شہر زارنج تک ایک روڈ تعمیر کرڈالا جس نے ایرانی پورٹ چا بہار تک کی رسایی کو ممکن
بنا دیا- جنوری ٢٠٠٩ سے یہ روڈ مکمّل فنکشنل ہونے کے بعد افغانستان، ایران اور
ہندوستان کا سارا امپورٹ ایکسپورٹ چا بہار کے پورٹ سے ہونے لگا- اس پورٹ سے قبل افغانستان کی سا ری
در آمد اور بر آمد کا واحد ذریعہ کراچی پورٹ تھا-
کراچی پورٹ پر تاخیری حربہ اور دیگر پریشانی سے افغانی نالاں تھے اور برسوں
سے متبادل پورٹ کی تلاش میں تھے-
تیزی سے بگڑتی
ہوئی بین الاقوامی الجھاؤ میں پاکستان کو لا محالہ دوغلی پالیسی پر عمل دار آمد
کرنا پڑ
رہا ہے- حالت اس نہج کو پہنچ چکے
ہیں کہ پڑوسی ممالک جن میں بھارت، افغانستان، ایران، اور وسطی ایشیا میں روسی فیڈریشن کے ممالک پاکستان کا اعتماد
کھو تے جا رہے ہیں- یہ کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی-
ملک کی داخلی اتحاد مختلف قسم کی
تفرقہ بندییوں کا شکار ہو چکی ہے- مذہبی، سیاسی،
نسلی، قبایلی اور صوبائی فرقہ واریت نے قوم، ملک اور پاکستانی معاشرہ کو بری طرح
متاثر کر رکھا ہے- ملک کے چاروں صوبے چار قومیتوں (سندھی، پنجابی، بلوچ اور پختون) میں منقسم ہیں- FATA
جسے اردو میں (وفاقی منتظم شدہ
قبائیلی علاقہجات)کہا جاتا ہے یہ پاکستان کے شمال-مغرب میں
سات (٧) عدد قبائلی ایجینسیوں اور چھ (٦) عدد سرحدی علاقوں پر مشتمل ہے- انکی
حیثیت نیم آزادانہ ہے- پاکستان کی وفاقی حکومت عہد برطانیہ کے قانون “Frontier Crimes Regulations” کے تحت انکا نظم و نسق
دیکھتی رہی ہے- اسکی سرحدیں ایک طرف بلوچستان اور پختونخواہ اور دوسری طرف
افغانستان سے ملتی ہیں - اسکی کل آبادی پشتون نسل پر مشتمل ہے- پاکستان میں پشتون نسل کے لوگ پختونخواہ میں صد فیصد اور افغانستان میں ساٹھ (٦٠) فیصد پشتون نسل کے لوگ آباد ھیں- FATA کا تقریباً سارا علاقہ پاکستانی، افغانی
اور دیگر ملکوں کے دہشت گرد تنظیموں کا آماجگاہ بن چکا ہے کیونکہ عملی طور پر یہاں قبائیلی
نظام را یج ہے- ٢٠٠٨ء میں پریذیڈنٹ زرداری
نے فاٹا کی سٹیٹس (status) کو تبدیل کرنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن اگست ٢٠١١ میں وہ
صرف سیاسی پارٹیوں کو فاٹا میں اپنا کھیل کھیلنے کی اجازت دےسکے اور فرنٹیئر کے برٹش پینل
کوڈ میں متعلقہ تبدیلی کر سکے- مجموعی طور
پر اسکی حیثیت آج بھی وہی ہے جو برطانوی
حکومت کے دور میں تھی- آج بھی وہ بغیر کسی پارلیمان کے اور بغیر کسی نمایندگی کے
فیڈرل گورنمنٹ کی نگرانی میں ہے-
اب سب سے بڑا سوال ہمارے سامنے یہ ہے کہ پاکستانی عوام ان
حالت میں کیا کریں – سول انتظامیہ اور فوج بری طرح ایک بھنور میں پھنس چکی ہے- پاک،
بھارت اور افغانستان تینوں پڑوسی ممالک ہیں- یہ گزشتہ صدیوں سے ہیں اور آیندہ
صدیوں ساتھ ہونگے- امریکا. یورپ، جاپان، اور دیگر امدادی ممالک دیر سویر چلے
جاینگے- لیکن اوپر کے تینوں پڑوسی ممالک کو ہمیشہ ہمیشہ ساتھ رہنا ہے- ایسی حالت
میں پاکستانی عوام کے سامنے جو چوائس ہیں وہ محدود ہیں اور خطرے سے خالی نہیں-
پاکستان کے عوام میں اور عوامی نمایندوں میں بے پناہ صلاحیتیں موجود ہیں- وہ ان
تمام مسائل کو بخوبی حل کر سکتے ہیں- لیکن
مشکل یہ در پیش ہے کوئی مسلہ بغیر ذاتی مفاد کی قربانی کے حل نہیں ہوتا- اور یہی
جنس عوام اور عوامی نمایندوں کے پاس فروخت کے لئے نہیں ہے- اگر یہ پہلے سے موجود ہوتا تو آج یہ مسایل پیدا
ہی نہ ہوتے- الله نگہبان-
= X =